حقیقی جمہوریت اور حقیقی وفاق

December 23, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

دنیا کے کسی بھی ملک کے دو ستون ہوتے ہیں جن پر وہ ملک یا وہ سلطنت کھڑی ہوتی ہے، جب پاکستان قائم ہوا تب ملک میں وفاقی نظام نہیں تھا بلکہ ملک میں مارشل لگا رہا یا سویلین آمریت رہی، وفاقی نظام کو کافی عرصے تک کوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی، پہلی بار 1973ء میں ایک ایسا آئین بنا جسے وفاقی آئین کہا جاسکتا ہے مگر اس آئین پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوا، یہاں تک کہ پاکستان کے ایک آمر جنرل ضیاالحق نے اس آئین میں ایک نئی شق شامل کرادی جس کے تحت ملک کے سربراہ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جب چاہے پارلیمنٹ تحلیل کرسکتا ہے، خوش قسمتی سے اس شق کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین سے خارج کردیا گیا۔ اسی آئینی ترمیم کے تحت کچھ دیگر اچھی ترامیم بھی کی گئیں جن کے تحت صوبوں کے کچھ حقوق بحال کئے گئے ۔بلاشبہ چھوٹے صوبے کے عوام اور قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ کوئی شک نہیں کہ 18ویں آئینی ترمیم انتہائی ضروری تھی مگر آئین میں کچھ ترامیم کرکے آئین کو حقیقی وفاقی بھی بنانا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال یہ اہم مقصد حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر یہ مقصد حاصل کرنا اب پاکستان کے مفاد میں ہے ورنہ جو صورتحال ہے وہ کسی وقت بھی انارکی کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس مقصد کا حصول اس وجہ سےبھی انتہائی مشکل نظر آرہا ہے کہ کافی عرصے سے اس ملک پر جن قوتوں کا قبضہ ہے وہ نہ جمہوری ہیں اور نہ ان کو عوام کا مفاد عزیز ہے،حالانکہ پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ یہاں اپر کلاس کے بجائے عوام کے مفاد کو عزیز رکھا جائے، ضروری ہے کہ پاکستان کے آئین کو ایسی شکل دی جائے کہ ہمارا آئین اور ملک خواص کی ملکیت نظر آنے کی بجائے عوام کی ملکیت نظر آئے ،یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا جب پورے ملک کے مظلوم طبقوں کے سمجھدار اور ایماندار لوگ اکٹھے ہوں،ایک عوامی اور حقیقی وفاقی آئین تشکیل دیں اور مشترکہ جدوجہد کریں۔ سوال یہ ہے کہ اس حقیقی، جمہوری اور عوامی آئین کی خاص خاص باتیں کیا ہونی چاہئیں؟ میرےخیال میں اس آئین کی چند خصوصیات یہ ہوں کہ اس کے تحت پارلیمنٹ میں مساوی نمائندگی ہو،ملک کے صدر اور وزیر اعظم کے عہدے یکساں مدت کے لئے چاروں صوبوں کو دیئےجائیں،وفاقی کابینہ،وفاقی سیکریٹریوں، سا ر ے وفاقی محکموں میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو،سپریم کورٹ میں بھی چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی مساوی نمائندگی ہو، اسی اصول پر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی تشکیل کی جائے۔ مثال کے طور پر آرمی، نیوی اور ایئر فورس میں بھی ہر لحاظ سے مساوی نمائندگی ہو، رینجرز بارڈر فورس ہے اسے صرف دوسرے ملکوں کے پاکستان سے منسلک بارڈرز پر متعین کیا جائے، اگر صوبوں میں بھی رینجرز جیسی فورس کی ضرورت ہو تو ہر صوبہ ملک کے آئین اور قانون کے مطابق اپنی اپنی رینجرز فورس بنائے مگر کافی عرصے سے سندھ میں امن و امان قائم کرنے کے لئے رینجرز کو متعین کیا گیا ہے۔اس کے نتیجے میں رینجرز صوبے بھر کے کئی شہروں کے اسکولوں اور کالجوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اس سلسلے میں 2009 ء میں اس وقت سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے ایک ایم پی اے کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’صوبے بھر میں اسکولوں اور کالجوں کے ہاسٹلز کی 27 عمارتیں امن و امان قائم کرنے والے ا داروں کےاستعمال میں ہیں۔‘‘ اس سلسلے میں تفصیلات دیتے ہوئے صوبائی وزیر نے بتایا کہ گورنمنٹ نور محمد ہائی اسکول اور مسلم کالج حیدرآباد کے ہاسٹل، گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول، کمپری ہینسو اسکول لطیف آباد نمبر 10 اور گورنمنٹ سیٹھ حافظ ہائی اسکول حیدرآباد کی عمارت کا ایک حصہ رینجرز کے پاس ہے، اس کے علاوہ کراچی میں دو سیکنڈری اسکول رینجرز اور پولیس کے پاس ہیں، تعلقہ مٹیاری کی یوسی شاہ عالم شاہ کے علاقے میں گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول مشتاق حاجانو رینجرز کےزیر استعمال ہے، شکار پور کے علاقے میں گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول نیر کوٹ پولیس کے پاس ہے،گورنمنٹ کالج آف ایڈیوکیشن گھوٹکی اور کراچی میں 6 کالج و ہاسٹلز رینجرز کے قبضے میں ہیں جن میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج جنگل شاہ کیماڑی، ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج کا ہاسٹل، جامع ملیر گورنمنٹ کالج ملیر، نیو کراچی میں گورنمنٹ کالج آف فزیکل ایجوکیشن کا ہاسٹل اور پرنسپل کا بنگلہ، نیو کراچی میں گورنمنٹ کالج فار وومین 11 ایف اور لیاری میں گورنمنٹ ڈگری اینڈ سائنس کالج شامل ہیں۔ (جاری ہے)