مزدور کا کون سوچتا ہے؟

January 25, 2023

جن حالات سے ملک کی معیشت گزر رہی ہے اور جو کارنامے عمران خان انجام دے گئے ہیں، اس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ متاثر مزدور طبقہ ہوا ہے۔ مزدور اس دور میں دو وقت کی روٹی کا محتاج ہے جبکہ مزدور کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکا ڈالنے والے امیر سے امیر تر ہوتےجارہے ہیں ،مزدور اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم تک نہیں دے سکتا، وہ روز مرتا ہے ۔یوں تو مزدور کے حقوق بہت ہیں لیکن ملک کا سرمایہ دار طبقہ مزدور کو ا س کا حق دینا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میڈیا کےبعض اداروں میں بھی مزدوروں کی حق تلفی عام ہے۔جن اداروں میں یونین سازی کی اجازت ہے، وہاں سرمایہ دار پاکٹ یونین کو نام نہاد انتخابات کرواکے جتوا دیتے ہیں اور یہ نام نہاد مزدور ان مالکان کے گن گانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اگر دیکھا جائے تو ملک بھر میں مزدور پریشان ہے، بہت کم ادارے مزدور کو اس کا حق دیتے ہیں ۔ایک زمانہ تھاجب مزدور کو مستقل ملازمت، حج وعمرہ اورعلاج معالجے کی سہولت پچاس فیصد بونس، میرج گرانٹ وغیرہ وغیرہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن وغیرہ ملتے تھے جو اب قصہ ماضی بن چکی ہے، اب صنعتی مزدور روزانہ کی اجرت کو ہی اپنا جائز حق تسلیم کرچکا ہے اور اسے روزانہ اجرت بھی انتہائی کم دی جارہی ہے۔ صنعتوں میں ٹھیکیداری نظام مکمل طور پر مضبوط ہوچکا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان جیسے ادارے میں بھی مزدوروں کو ٹھیکیداری نظام میں رکھا جاتا ہے جہاں وہ اسٹیٹ بینک کے ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدار کے ملازم ہیں، یہ ہی حال ملک کے دیگر اداروں کا ہے۔ مزدور کا خون چوسنے والے ٹھیکیدار امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ مزدور دشمن ٹھیکیداروں کو مختلف سیاسی جماعتیں بھی مکمل سپورٹ کرتی ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں مزدور کو حقوق دلانے سمیت معاشرے میں مقام دلانے کے حوالے سےصرف خوبصورت لفظوں پر مشتمل منشورپیش کرتی ہیں۔ آج صنعتی مزدوراپنے تمام جائز حقوق و مراعات سے محروم ہے ،ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ، یونین سازی کا حق نہیں ،یونین سازی کرنے پر مزدوری سے فراغت کے علاوہ جھوٹے مقدمات اور دھمکیاں مزدور کو بونس میں ملتی ہیں ۔ایسی صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مزدورکی لیڈری کے نام پر روٹیاں توڑنے والےکہاں ہیں؟ مزدور کی سودے بازی کون کررہا ہے، مزدور کو ملکی آئین و قانون نے جو حق دیا وہ حق نہ دے کر اس آئین و قانون کو سرمایہ دار ماننے سے انکاری ہے، مزدور کے تحفظ کیلئے قائم ادارے کہاں گئے، مزدور تحریکیں کہاں گئیں ؟ یہ مزدور تحریکیں ہی تھیں جنہوں نے ایوب خان کو گھر بھیجنے میں اہم کردار اد اکیا، یہ مزدور تحریکیں ہی تھیں جو ضیاالحق کی آمریت کو بھی للکارا کرتی تھیں مگر کہاں ہیں آج سب ؟ بد قسمتی سے پاکستان میں آج یونین سازی ایک دھندہ بن گیا ہے، بعض مزدور یونین رہنما آج مہنگی گاڑیوں پر سفر کرتے نظر آتے ہیں، ہمارے دور کے رہنما تو سائیکلوں اور موٹر سائیکل پر نظر آتے تھے مگر یہ کیسے مزدور رہنما ہیں جو کروڑوں روپے کی گاڑیاں لئے پھرتے ہیں؟ کہاں سے آیا یہ پیسہ ؟ٹریڈ یونین یا مزدور یونین صرف ریفرنڈم لڑنے اور اداروں میں طاقت حاصل کرنے کا نام نہیںبلکہ ریفرنڈم ٹریڈ یونین ازم کا محض ایک حصہ ہے جہاں اجتماعی سودا کار ایجنٹ مزدوروں کی مراعات کو بڑھانے کیلئے سودا کاری کرتے ہیں اور مالکان سے ’’کچھ لو کچھ دو‘‘ کے اصول پر مزدوروں کیلئےمراعات لیتے ہیں ، بد قسمتی دیکھیں کہ آج کے بعض مزدور رہنما مل مالکان سے مزدوروں کیلئے کچھ لینے کے بجائے اپنی آنے والی نسل کیلئے نوکریاں لیتا نظر آرہا ہے اور یہ ہی ضیاالحق کا خواب تھا کہ اس ملک کا مزدور اپنی طاقت کھو بیٹھے تاکہ اسے تقسیم کرنا آسان ہو، ضیا الحق کے دور تک مزدور تحریکیں جمہوری آوازوں کو مضبوط کرنے کا باعث بنتی آ رہی تھیں۔سیاسی کارکنان اور ٹریڈ یونین کا زور توڑنے کیلئے مزدوروں کا قتل عام کیا گیا۔ ایک ٹیکسٹائل مل کے مزدور بونس کی ڈیمانڈ کر رہے تھے جو انہیںکئی برسوں سے مل رہا تھا۔ 28 دسمبر 1977کو مزدور ہڑتال پر بیٹھے، 2جنوری1978کو مل مالک کی بیٹی کی شادی تھی جس میں ایک اہم ترین شخصیت بھی آرہی تھی جس کے حکم پر ان ہڑتالی مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور بیسیوں مزدور مار دیے گئے اور مزدوروں کویہ پیغام دیا گیا کہ جو بولے گا مار دیا جائے گا، مزدوروں پر گولی کی رسم آج بھی جاری ہے، جہاں گولی نہیں چلتی وہاں مزدوروں کے رہنما کو خرید لیا جاتا ہے، بد قسمتی سے اس وقت ملک میں مزدوروں کی کوئی تحریک نہیں جو کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو، خدا پاکستان کا حامی و مددگار ہو۔