گردشی قرضے، ملکی معیشت کیلئے چیلنج

January 30, 2023

پاکستان کے پاور اور گیس سیکٹر کے گردشی قرضے یا سرکلر ڈیٹ بڑھ کر 4000ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں پاور سیکٹر کے 2500 ارب روپے اور تیل اور گیس کے 1500 ارب روپے شامل ہیں جس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تیل اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیاں اور آئل ریفائنریز شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ فرنس آئل اور LNG کی امپورٹ کیلئے حکومت کے پاس ڈالر نہیں۔ بجلی اور گیس کی پیداواری لاگت اور اس کی سپلائی سے وصولیوں کے فرق کو گردشی قرضے کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر بجلی کے ایک یونٹ کی فرضی پیداواری لاگت اگر 35روپے ہے اور اس سے 25روپے وصول ہورہے ہیں تو 10روپے کا خسارہ گردشی قرضے بنارہا ہے۔ یہی صورتحال قدرتی گیس اور LNG کی ہے جنہیں مہنگی امپورٹ کرکے سستے نرخوں پر سپلائی کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی چوری، کرپشن، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی بدانتظامیاں، پرانے اور ناقص بجلی گھر، کیپسٹی چارجز، 17فیصد ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات (473ارب روپے سالانہ چوری)، UFG نقصانات (120CF سالانہ)، واپڈا کے بلوں کی 11فیصد عدم وصولی کی وجہ سے تیل اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بقایا جات کی عدم ادائیگی سرکلر ڈیٹ میں مسلسل اضافے کا سبب ہے۔ ADB کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیل اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے 31فیصد، بجلی اور گیس کے نرخوں کو بڑھانے میں تاخیر سے 35فیصد، مالی نقصانات سے 16فیصد اور سبسڈیز دینے سے 18 فیصد گردشی قرضے بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ IPPs معاہدے کے تحت حکومت کو ان کی بجلی پیداوار کا 60فیصد لازمی خریدنا پڑتا ہے اور معاہدے کی رو سے طلب نہ ہونے کے باوجود حکومت IPPs کو 60فیصد کیپسٹی سرچارج ادا کرتی ہے جبکہ IPPsسے آج کل سردیوں میں صرف 46فیصد بجلی خریدی جارہی ہے۔

2006ء تک ہمارے گردشی قرضے حد میں تھے لیکن جب IPPs سے مہنگی بجلی کی پیداوار 30فیصد سے زیادہ بڑھ گئی تو گردشی قرضوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا مگر کسی حکومت نے 4000ارب روپے کے گردشی قرضوں کے ’’ٹائم بم‘‘ کے بارے میں سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اطلاعات کے مطابق پیٹرولیم ڈویژن نے آئل اور گیس کے 1500ارب روپے کے گردشی قرضوں میں سے 850 ارب روپے حکومتی گیس کمپنیوں (PSEs) کے ڈیویڈنڈ یعنی منافع سے ایڈجسٹ کرنے اور بقایا 650ارب روپے گیس کی قیمت بڑھاکر گردشی قرضے ختم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ SSGC اور SNGC میں گھریلو اور کمرشل صارفین کیلئے گیس کی قیمت نہ بڑھانے کی وجہ سے 677ارب روپے کے نقصانات ہیں۔ SSGC کے گھریلو اور کمرشل صارفین کے نرخ 450روپے فی MMBTU ہیں جن کو بڑھاکر 952 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح SNGC کے گھریلو اور کمرشل صارفین کے نرخ 400روپے فی MMBTU ہیں جن کو بڑھاکر 1162روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ صنعتوں اور Captive پاور کو گیس 819 روپے فی MMBTU سپلائی کی جارہی ہے جسے بڑھاکر 952روپے کرنے کی تجویز ہے۔ سردیوں میں گیس کی کمی پوری کرنے کیلئے گزشتہ سال حکومت 108ارب روپے اور اس سال فروری تک 110 ارب روپے کی RLNG سسٹم میں داخل کرے گی۔ IMF نے حکومت سے مہنگی گیس خرید کر سستے نرخوں پر سپلائی کرنے سے پیدا ہونیوالے سرکلر ڈیٹ کو گیس کے نرخ بڑھاکر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بنائی جانے والی کمیٹی کے سربراہ میرے دوست اشفاق تولہ نے مجھے بتایا کہ جلد ہی وزیر خزانہ گردشی قرضوں میں کمی کیلئے کمیٹی کے تجویز کردہ اقدامات کا اعلان کریں گے۔ PTI حکومت نے ،جب عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں، دبائو میں آکر پیٹرول کی قیمت 10روپے اور بجلی کی قیمت 5روپے کم کردی تھی جس سے 4مہینے میں حکومت کو 500ارب روپے کا نقصان ہوا لیکن PDM حکومت نے جون 2022ء میں IMF معاہدے کے تحت پیٹرولیم مصنوعات پر 4روپے فی لیٹر ماہانہ کے حساب سے 30روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی لگایا تھا اور اب IMF نے جنوری 2023ء سے اضافی 10 روپے فی لیٹر ماہانہ کے حساب سے مجموعی 50 روپے فی لیٹر PDL اور 17فیصد GST لگانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مقامی پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کوختم کیا جائے نہیںتویہ گردشی قرضوں میں مزید اضافے کاباعث بنے گا۔

پاکستان میں بجلی کے مہنگے نرخ کی وجہ ہمارا مہنگا انرجی مکس ہے یعنی ہم بجلی پیدا کرنے کے سستے ذرائع کے بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کررہے ہیں جس کیلئے ہمیں بیرون ملک سے فرنس آئل،LNG اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنا پڑتی ہیں جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔ ہم اس وقت 64فیصد بجلی فرنس آئل، 27فیصد پن بجلی (ہائیڈرو) اور 9فیصد بجلی متبادل توانائی سے پیدا کررہے ہیں جس کیلئے ہم نے 20ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کیں جو ایک سال پہلے 10 ارب ڈالر تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جو قدرتی وسائل دیئے ہیں، اُن سے ہم 60000 میگاواٹ ہائیڈرو بجلی پیدا کرسکتے ہیں لیکن ہم صرف 7320میگاواٹ ہائیڈروبجلی پیدا کررہے ہیں۔ اسی طرح ہم ہوا سے 50000 میگاواٹ اور سورج سے پورا سال سولر پاور پیدا کرسکتے ہیں لیکن ہم متبادل توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے سستے ذرائع چھوڑ کر امپورٹڈ آئل اور LNGسے مہنگی بجلی پیدا کررہے ہیں۔ میرےخیال میں اس وقت ملکی معیشت کا سب سے بڑا چیلنج گردشی قرضے ہیں جن کو کنٹرول کرنے کیلئے پاور اور گیس سیکٹر میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات لانا ہوں گی اور مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے ہمیں کم از کم50فیصد ہائیڈرو، 30فیصد تھرمل اورکوئلہ، 10فیصد نیوکلیئر اور10فیصد ہوا اورشمسی توانائی سے سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی، نہیںتوگردشی قرضوں کا یہ ٹائم بم ملکی معیشت کے دوسرے شعبوں کوبھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔