وطن پکار رہا ہے

February 07, 2023

آئی ایم ایف سے حکومتی مذاکرات جاری ہیں ،ان مذاکرات میں یہ طے کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی عوام کی زندگیوں میں مزید مشکلات کیسے لائی جا سکتی ہیں؟اس گورکھ دھندے تک پہنچنے میں 34برس لگے ہیں ، آئی ایم ایف ان 34برسوں میں حکومتوں کے ساتھ مل کر مشکلات میں اضافہ کرتا رہا ہے اور اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ پاکستان اپنی بد ترین معاشی صورتحال سے دوچار ہے، اس صورتحال میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ ان 34برسوں میں صرف چار برس ایسے تھے جب ہم آئی ایم ایف سے دور رہے ۔یہ چار برس وہ تھے جب یہاں پرویز مشرف مرحوم کی حکومت تھی، مشرف پر تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ جس شخص پر وہ دن ر ات تنقید کرتے ہیں اسکے دور میں ڈالر صرف ساٹھ روپے کا تھا، اس کے دور ہی میں وہ چار برس آئے جب ہم آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد تھے ۔

موجودہ حکمران آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر عوامی زندگیوں پر شکنجہ کسنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہو جائے گا، بجلی بھی مہنگی کر دی جائیگی اور اِن دو چیزوں کے مہنگا ہونے کے بعد زندگی کی باقی تمام ضروریات بھی مہنگی ہو جائینگی۔مہنگائی اتنی ہو جائیگی کہ لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو جائیگا، لوگوں کی قوت برداشت جواب دے جائے گی، اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں مظاہرے ہونگےاور ان مظاہروں سے ہنگامے پھوٹ پڑیں گے۔ جو معاشی صورتحال آج ہے وہ ایک سال پہلے نہیں تھی، ایک سال پہلے لوگ روٹی کو نہیں ترس رہے تھے اور اس قدربرے معاشی حالات کا شکار نہیں تھے جو بھیانک صورتحال آج ہے وہ ایک سال پہلے تو بالکل بھی نہیں تھی، بے روزگاری بھی ایسی نہیں تھی، کاروبار بھی اس طرح بند نہیں تھے ،فیکٹریاں بھی یوں بند نہیں تھیں۔ گزشتہ گیارہ مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا، ہمارا زرِمبادلہ کہاں سے کہاں تک نیچے آ گیا۔کچھ لوگ اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں کیوں کہ وہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں ،میری ان سے درخواست ہے کہ کم از کم لوگوں کے سامنے سچی تصویر تو رکھیں کہ آپ کی دن رات کی کاوشوں سے ملک مشکل ترین دور میں داخل ہو رہا ہے۔میں نے کسی پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ میرے نزدیک اپنے وطن سے پیسہ چوری کرکےلے جانا غداری کے مترادف ہے، جو لوگ بھی اس ملک سے پیسہ چوری کرکے لے گئے وہ اس پیارے پاکستان کے دوست تو ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ہمارے پیارے وطن کو بھی کیسے حکمران نصیب ہوئے ہیں کہ وہ اس پیاری دھرتی سے پیسہ چوری کرکے باہر لے جاتے ہیں اور ساتھ ہی اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے پاکستان کا خیال کرو، یہاں رقوم بھجوائو، شاید ایسے ہی کسی موقع کے لئے غالبؔ نے کہا تھا کہ ؎

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

میری ایسے تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں سے اپیلیں کرنے کی بجائے وہ دولت ملک میں لے آئو جو آپ لوٹ کر لے گئے تھے ۔وہ تمام لوگ جو یہاں سے لوٹ مار کرکے دولت بیرون ملک لے گئے تھے، وہ اگر اپنی دولت پاکستان واپس لے آئیں تو ہمارے حالات بالکل بدل سکتے ہیں ہم معاشی ابتری سے باہر نکل سکتے ہیں، دولت باہر لے جانے والوں میں اگرچہ اکثریت سیاست دانوں کی ہے مگر ان میں سول و عسکری بیوروکریسی کے لوگ بھی شامل ہیں، کچھ کاروباری افراد بھی ایسے ہیں جو یہاں سے لوٹ مار کرکے اپنی دولت بیرون ملک لے گئے۔ ان لوگوں کو اگر اپنے وطن سے پیار ہے تو پھر یہ لوگ اپنی دولت ملک میں واپس لے آئیں کیونکہ اس وقت وطن کی یہی پکار ہے ۔

موجودہ بگڑی ہوئی معاشی صورتحال میں ہمارے معاشرتی حالات بھی ناقابلِ بیان حد تک خراب ہو چکے ہیں ۔اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے، معاشرے میں چوریاں اور ڈاکے عام ہو چکے ہیں۔ اغوا برائے تاوان اور بھتے کے واقعات بڑھ گئے ہیں ۔جرائم کی شرح بہت حد تک بڑھ گئی ہے، یہ جرائم یقیناً معیشت کی کوکھ سے نکلے ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں معاشی حالات درست کرنے چاہئیں ۔عادات حکمرانوں سے نیچے تک منتقل ہوتی ہیں لہٰذا حکمرانوں کا طبقہ جھوٹ بولنا چھوڑ دے، جھوٹ برائیوں کی جڑ ہے، جھوٹ دھوکے کا آغاز ہے اور آغاز اگردھوکے سے ہو تو انجام درست نہیں ہوسکتا، لوگوں کی جان ومال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے ،ہمارے حکمرانوں کو غور کرنا چاہئے کہ کیا وہ یہ ذمہ داری بخوبی انجام دے رہے ہیں اگر نہیں تو پھر انہیں خود کو الگ کر لینا چاہئے ۔لوگوں کو دھوکے میں نہ رکھیں ، لوگوں کے لئے آپ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر بھی لوگوں سے سچ تو بول دیں، دس گیارہ مہینوں سے تماشا لگا ہوا ہے ۔بقول افتخار عارفؔ

بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہو گا

مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا

چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو

ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا