انتخابات اور سوالات

February 09, 2023

ایسے منظرنامے میں، کہ ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی جا چکی ہیں اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تمام ارکان کے ایک ساتھ دیئے گئے استعفوں میں سے قابل لحاظ تعداد میں استعفے قسطوں میں منظور کئے جا چکے ہیں، ناگزیر ہوجاتا ہے کہ خالی ہونے والی نشستوں کو نئے اور ضمنی انتخابات کے ذریعے پُر کیا جائے۔ اس باب میں کئی سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ان نشستوں کے علیحدہ علیحدہ انتخابات کیونکر کرائے جائیں،پھر متعدد سیٹوں پر ایک ہی فرد کے الیکشن لڑنے سے پیدا ہونے والے (یعنی ایک نشست برقرار رکھ کر دیگر سے دستبرداری جیسے) نئے مسائل سے نمٹنے کے لئے انتخابی مشق کو دہرایا جائے اور پھر قومی اسمبلی کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد اگلے پانچ برسوں کے لئے ایک اور الیکشن کے پورے عمل سے قوم کو کیسے گزارا جائے۔ الیکشن آسان عمل نہیں۔ ایک نشست پر الیکشن سے بھی بعض اوقات ملک بھر میں نہ سہی، بہت بڑے حصے میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ الیکشن کے لئے غیر معمولی انتظامات پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔ دنیا بھر میں جمہوری ممالک انتخابات کی مدت کا تعین بہت سوچ سمجھ کر اسی لئے مقرر کرتے ہیں کہ ایک مختصر وقت کی ہلچل کے بعد معاملات ٹھہرائو اور معمول کی طرف آجائیں۔ امریکی نظام میں تو صدر کے انتخاب، عہدہ سنبھالنے، ایوان نمائندگان کے نصف مدتی انتخابات سمیت تمام چیزیں شیڈول کے مطابق ہو جاتی ہیں اور قومی زندگی کے معمولات میں بڑا فرق آنے کے امکانات کافی کم کر دیئے گئے ہیں۔برطانیہ میں مختصر عرصے میں کئی وزرائے اعظم جمہوری طریقے سے تبدیل ہو گئے مگر قومی زندگی اور معیشت پر وہ دبائو نہیں آیا جو پاکستان میں ہر شہری محسوس کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت لاغری کی شکار نظر آتی ہے اس باب میں سب سے پہلے تو یہ امر پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ آئین متانت پر مبنی طرز زندگی کا چلن چاہتا ہے، اس سے کھلواڑنہیں کی جانی چاہئے۔ یہ بات ایسی صورت میں مزید اہم ہو جاتی ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ اس منظر نامے میں یہ سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں کہ ایک پارلیمانی جمہوریت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نئے یا جزوی انتخابات کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جب یہ کہتے ہیں، ملک علیحدہ علیحدہ انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا تو وہ موجودہ حکمراں اتحاد کی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ پنجاب اورکے پی میں 90دن کے اندر انتخابات کا امکان نہیں۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کا لاہور کی ایک تقریب میں کہنا ہے کہ چھ ماہ بعد عام انتخابات آ رہے ہیں، جلد انتخابات کی ضد نہ کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 حلقوں میں ایک ہی شخص کھڑا ہوگا اور پھر سب سے استعفیٰ دیدے گا، پھر ان حلقوں میں الیکشن کرائے جائیں گے جبکہ یہ بھی معلوم ہے کہ الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبائی الیکشن 90 دنوں سے زیادہ آگے تک بڑھ جانے کے عمل کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ صورت میں وہ’’ جیل بھرو‘‘ تحریک کی تاریخ دے دیں گے۔ عمران خان نے اپنی پارٹی کےترجمانوں کے ایک اجلاس سے خطاب میں آل پارٹیز کانفرنس میں جانے کا عندیہ دیا ہے جس سے کئی الجھے ہوئے مسائل کے حل نکالے جانے کے امکانات سامنے آئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان سمیت تمام پارٹیوں کے رہنما ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور معیشت کی ابتری اور دہشت گردی کے سنگین خدشات سے دوچار قوم کے مسائل حل کرنے کیلئے مل جل کر کام کریں۔