آئی ایم ایف پروگرام اور معیشت کی بحالی؟

February 20, 2023

پاکستان کی معیشت گزشتہ چند ماہ کے دوران جس تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئی ہے، ماضی میں اس کی مثال ڈھوندنا بھی مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کیلئے حکومت نے جان بچانے والی ادویات اور اشیائے خورونوش کے علاوہ ہر قسم کی درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے درآمدی صنعتوں کو درکار خام مال کی فراہمی تعطل کا شکار ہو چکی ہے اور برآمد کنندگان کیلئے غیر ملکی گاہکوں کے برآمدی آرڈرز کی بروقت تکمیل مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے اپنی ’معاشی جادوگر‘ کی شبیہ برقرار رکھنے کے لئے ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر منجمد رکھنے کی کوشش نے بھی پاکستان کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ڈالر کی قدر مصنوعی طور پر کم رکھنے کی کوشش کے باعث ہنڈی اور بلیک مارکیٹ دوبارہ مضبوط ہوئی اور صرف ترسیلاتِ زر کی مد میں پاکستان کو ہر ماہ تقریبا ایک سے دو ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑا جب کہ برآمدات میں بھی ماہانہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی کمی آ چکی ہے۔ اس لاحاصل مشق کا انجام یہ نکلا کہ جیسے ہی ڈالر کی قدر پر لگائی گئی مصنوعی پابندی ختم ہوئی اس کی قیمت یکدم بیس سے تیس روپے بڑھ گئی ۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جو اقدامات ستمبر ، اکتوبر میں کئے جا سکتے تھے ان میں خوامخوہ کی تاخیر کرکے ہر شعبے کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ تادم تحریر یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گیا ہے یا اس کے لئےمزید پیشگی شرائط کو پورا کرنا ہوگا؟ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین 9ویں جائزہ پروگرام کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد وزیر خزانہ کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہےکہ آئی ایم ایف نے حکومت کی جانب سے معاشی پالیسیوں میں پے در پے تبدیلیوں کو مدنظر کرتے ہوئے اگلی قسط کے اجراء سے پہلے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھنے اور مستقل بنیادوں پر آمدنی بڑھانے کی شرائط پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے فنڈنگ کی یقین دہانی مانگ لی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے کو ان شرائط کی تکمیل اور واشنگٹن کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی بحالی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ۔آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے مہنگائی بڑھے گی اور درآمدی اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ایسے میں حکومت کے پاس واحد آپشن یہی رہ جاتاہے کہ بنیادی اشیائے خورونوش یعنی آٹا، گھی ، چینی،دودھ ، چاول اور دالوں وغیرہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرے اور ان کی طلب و رسد میں توازن پیدا کر کے عام آدمی کے لئے ان کی فراہمی آسان بنائے۔ اس کے لئے ضلع اور تحصیل کی سطح پر انتظامی مشینری کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کو عام آدمی کی آمدنی اور قوت خرید بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت بھی ہے ۔ اس سلسلے میں پہلی ترجیح برآمدی صنعتوں کو دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم اپنی معیشت کو چلانے کے لئے خود ڈالر کمانے پر توجہ نہیں دیں گے دنیا کا کوئی مالیاتی ادارہ یا دوست ملک مستقل بنیادوں پر ہماری مالی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ برآمدی صنعتوںکو پوری استعداد پر چلانے سے ناصرف برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ اس شعبے سے جڑے دیگر کاروباری شعبوں کا بھی پہیہ چلے گا جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی معاشی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ اس وقت تک حکومت کی سطح پر برآمدات کو بڑھانے کی کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آ رہی ۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے ایک واضح پالیسی تشکیل دے تاکہ برآمدات کو 30 سے 40ارب ڈالرز تک بڑھایا جا سکے ۔ علاوہ ازیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر کو بڑھانے کے لئے بھی فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے انہیں براہ راست سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے مکمل تحفظ کی پالیسی متعارف کروائی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نےزرمبادلہ کے حوالے سے درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے حاصل ہونے والی ترسیلات زر کو بڑھانے پر خصوصی توجہ دی تھی جس کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے لیکن بدقسمتی سے حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس حوالے سے جاری پالیسیوں کو بھی تبدیل کر دیا گیا ۔ان حالات میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم طویل المدت بنیادوں پر معیشت کی بحالی کے لئے ایسے اقدامات کریں جن سے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو۔اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگا ئی جائے اور مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جائے کہ وہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات ملک میں تیار کریں۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری اور وزیروں ، مشیروں کو ملنے والی مراعات کو بھی محدود کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مقروض ملک ان عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جو پاکستان میں جاری ہیں۔