آئی ایم ایف کی نئی شرائط!

March 23, 2023

حکومت پاکستان تاریخ کےجن بدترین مسائل میں گھری ہوئی ہے اور معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر صبرآزما کوششوں میں مصروف ہے ، ان میں سر فہرست عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ طے پائے گئے ساڑھے چھ ارب ڈالر قرضے کے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی ہے جس کیلئے اسے گذشتہ دو ماہ کے عرصے میں غریب عوام کا پیٹ کاٹتے ہوئے پہلے سے زیادہ سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے اور آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ من و عن پورا کیا۔ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی خاطر گذشتہ ماہ رواں مالی سال میں دوسرا منی بجٹ پیش کرنا پڑا اور جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھاکر20فیصد کرنا پڑی۔ سیکڑوں درآمدی اشیا پر 25 فیصد کی شرح سے نئے ٹیکس عائد کئے گئے۔پیٹرول کی قیمتوں میں پندرہ دن میں یکے بعد دیگرے 35 اور 22 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا۔ بجلی فی یونٹ مجموعی طور پر 8 روپے اورگیس 124 فیصد تک مزید مہنگی کرنی پڑی جس سے غریب آدمی کی قوت خرید بالکل جواب دے گئی اور اس کی جگہ متوسط طبقے نے لے لی ، حتیٰ کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد بھی آج بدترین مہنگائی کے ہاتھو ں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے موٹر سائیکل سواروں ، رکشہ اور چھوٹی گاڑیوں کے حامل طبقے کی مشکلات دیکھتے ہوئے انھیں پیٹرول پر 100 روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کا جو اعلان کیا ، آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے عین اس وقت جب حکومت پاکستان سے تمام معاملات طے پاچکے اور اسٹاف معاہدے پر دستخط ہونا باقی تھے ، ایک نیا مطالبہ رکھ کر اس کی مذاکراتی ٹیم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جس کے مطابق پاکستان کو اس کی مالی اعانت کا وعدہ کرنے والے ملکوں سے نئے قرضوں کی یقین دہانی فراہم کرنا ہوگی ۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ گو پاکستان نے پالیسی وعدے پورا کرنے کی جانب خاصی پیشرفت کی ہے تاہم اس کی طرف سے مزید پوائنٹس مکمل کئے جانا ضروری ہوگیا ہے ، جس کے بعد اسٹاف معاہدہ ہوسکے گا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی پاکستان میں ریزیڈنٹ نمائندہ ایسٹر پیریز روئز کا کہنا ہے کہ حکومت نے بڑی گاڑیوں کے مالکان سے ایندھن کی بڑھی ہوئی قیمتیں وصول کرکے اس کے بدلے میں کم آمدنی والے افراد کو جو فائدہ پہنچایا ہے ،اس بارے میں آئی ایم ایف سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس پر ہمارا عملہ تفصیلات حاصل کرکےحکام کے ساتھ بات چیت کرے گا۔ اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے درکار آئی ایم ایف سمیت دوست ملکوں سے اربوں ڈالر کا فنڈ حاصل کرنا اور پالیسی وعدوں پر عملدرآمد ناگزیر ہے۔ ان کے مطابق متذکرہ فنڈ گذشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نبرد آزما قوم کو کچھ ریلیف فراہم کریں گے۔ یہاں آئی ایم ایف کو اس کی سربراہ کے گذشتہ ماہ دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا جانا ضروری ہے جسمیں انھوں نے پاکستان کے غریب طبقے کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ٹیکسوں کی وصولی امیروں سے کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور فی الواقع ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری کسی بھی سطح پر گذشتہ پانچ برسوں سے تنخواہوں اور اجرتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ یہاں فی کس آمدنی دنیا کے کم ترین سطح والے ممالک میں شمار ہوتی ہے۔ گذشتہ برس کی تباہ کن بارشوں اور سیلابوں سے ملکی زراعت اور صنعت تباہی سے دوچار ہے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے عالمی سطح پر محض تخمینوں پر اکتفا کیا گیا ۔آئی ایم ایف سمیت اقوام عالم کو اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کی بحالی کیلئے آگے آنا چاہئے جو ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں دوسری اقوام کے ساتھ کھڑا رہا، آج انسانیت کی رو سے اس کے تقاضے بے جا نہیں۔