پکچر ابھی باقی ہے

March 23, 2023

ڈزنی ورلڈ کی ایک رائیڈ ہے ’روک اینڈ رولر کوسٹر‘ جو تین سیکنڈ میں ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے،پھر مزید تیز ہوتی ہے، اور پھر اسی برق رفتاری سے بل کھانا شروع کردیتی ہے اور جھولا لینے والے کو اندازہ ہی نہیں رہتا کہ اس کا منہ آسمان کی طرف ہے یا زمین کی جانب، کیوں کہ یہ سارا کھیل ایک تاریک سرنگ میں کھیلا جاتا ہے ۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیّاح ان جھولوں پر سوار ہوتے ہیں، مقصد تھرِل اور ایڈونچر ہوتا ہے، رائیڈ کے دوران رفتار اور اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اور گردشِ خون میں اچھے خاصے اضافے کے سبب اکثر سوار چیختے چلاتے ہیں۔آج یونہی خیال آیا کہ اگر کوئی پاکستانی اس رائیڈ پر بیٹھے تو یقیناً اسے جماہیاں آنے لگیں، اور وہ بوریت سے نمٹنے کے لیے اپنے بدن کے مرغوب حصوں پر بے مقصد خارش کر کے ٹائم پاس کرنے کی کوشش کرے۔پاکستان خود ایک ایسا رولر کوسٹر بن چکا ہے جس کے سامنے ڈزنی کی رائیڈ کسی معصوم ’آسمانی جھولے‘ سے زیادہ کچھ نہیں، ہمارا رولر کوسٹر ’سپیڈ کی لائٹ‘ سے سفر کر رہا ہے، کبھی دیوانہ وار اوپر جاتا ہے کبھی یک دم نیچے، کبھی آگے کبھی پیچھے، اور اندھیرا ایسا کہ کوئلے کی کان بھی شرما جائے۔

آئین کے تحت نظامِ مملکت چلانے کے لئے تین شاخیں قائم کی جاتی ہیں، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ مقننہ قانون بناتی ہے، انتظامیہ اس پر عمل درآمد کرواتی ہے، اور عدلیہ قانون توڑنے والوں سے نمٹتی ہے۔ تفصیلات میں نظام ہائے حکومت مختلف ہو سکتے ہیں مگر جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ انہی ستونوں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہو گئی کتابی بات جس کا ہماری ریاست و سیاست سے برائے نام سا تعلق رہا ہے مگر اب ہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں، جو ادارے حالتِ رکوع میں تھے اب سر بہ سجود ہو چکے ہیں، اندھیرا اور بڑھ گیا ہے، شکست و ریخت کی رفتار ناقابلِ یقین حدود کو چھو رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو ان کا پہلا ردِ عمل غیر آئینی تھا، آئین میں واضح طور پر لکھا تھا کہ چودہ دن کے اندر تحریک ایوان میں پیش کی جائے، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ پھر اگلے کچھ دنوں میں آئین میں جو جو لکھا تھا اُس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ پھر عمران خان نے مناسب سمجھا کہ پارلے منٹ کو کاٹ کر آدھا کر دیا جائے، لہٰذا وہ اپنی جماعت سمیت استعفے دے کر لانگ مارچ کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمان کو کٹی پھٹی اور کرم خوردہ قرار دے کر اس کی بچی کھچی عزت کا بھی انکار کر دیا گیا۔ہماری مقننہ کا یہ انجام ہوا۔ اب عدلیہ کا ذکر ہو جائے۔یا رہنے دیا جائے؟ کیوں کہ عدلیہ کے انجام کے تو آپ سب گواہ ہیں۔ انصاف دن دہاڑے ’ٹرک‘ کے پہیوں تلے آ کر کچلا گیا اور اب ایک لہو لہان وجود ہے جسے ہم نظامِ انصاف کہا کرتے ہیں۔ اب یہ طے ہو گیا کہ نہتے ملزم کے لئے کچھ اور قانون ہے اور جتھہ برداروں کے جلو میں آنے والے ملزم کے لئے ایک اور قانون۔ بہرحال، پورے کا پورا نظامِ انصاف آج اپنے مضحکہ خیز انجام سے دوچار نظر آتا ہے۔ اب آ جائیے انتظامیہ پر جس کی حالت پر اب تو ہنسی بھی نہیں آتی، پولیس پر پٹرول بم پھینکے جاتے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوتے ہیں، ان کی گاڑیاں جلائی جاتی ہیں، اور حکومت ہر دفعہ کہتی ہے ’اب کے مار‘۔ یہ پڑے ہیں ریاست کے تین بنیادی ستون، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ ہمارے ملک میں ایک اور محکمہ بھی ہے جس کے ذکر کے بغیر یہ بحث نامکمل رہے گی۔ وہ ہے افواجِ پاکستان جو ملک کا سب سے زیادہ منظم اور موثر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت صورتِ احوال یہ ہے کہ عمران لوورز زمان پارک سے واشنگٹن تک فوج کے خلاف نعرہ زن رہتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی ایک زہریلی مہم چلائی جا رہی ہے جس کا ہدف فوج کی قیادت کو متنازع بنانا ہے۔پچھلے ہفتے کراچی میں دو چار دن ایک میس میں قیام کا شرف حاصل ہوا، ریسپشن میں ٹی وی پر ایک الفتِ عمران میں ڈوبا ہوا چینل دیکھا جا رہا تھا، آمد گاہ کے کائونٹر کے پیچھے بیٹھے گورے چٹے حوالدار صاحب سے جب پوچھا گیا کہ یہ چینل تو آپ کے ادارے کی قیادت کے خلاف ایک منظم مہم کا حصہ ہے تو فرمانے لگے ’سر کچھ سمجھ نہیں آ رہا، بہت کنفیوژن ہے‘۔ اُ دھر زلمے خلیل زاد سے بریڈ شرمن تک پاکستان کے سب ’ہم درد‘ بھی لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اسحاق ڈار ہمارے میزائلوں کی رینج بارے کسی دبائو کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ آئین انتخابات کا تقاضا کر رہا ہے، آئی ایم ایف ہماری لکیریں نکلوا چکا مگر معاہدے کا دُور دُور تک کوئی سُراغ نظر نہیں آتا۔ قرائن کیا بتا رہے ہیں؟ کیا کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے؟

ملک کے سب ادارے بے توقیر ہو جائیں، معیشت منہدم ہو جائے، تو پیچھے کیا بچا؟ ایک ملبے کا ڈھیر ہے جس کی ملکیت کا جھگڑا پورے ذوق و شوق سے جاری ہے۔ بالغ نظری کا تقاضا تو سب اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات ہیں، مگر بالغ نظری کا ہمارے ہاں کیا گزر، سو یہ کام ہم سے نہیں ہو پائے گا۔ اگر ریاست کے ادارے اپنی قوتِ قاہرہ و نافذہ سے دست بردار ہو چکے ہیں تو کیا وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتے ہیں؟عسکری اداروں کے پاس مسائل کے حل کا صرف ایک ہی موثر نسخہ ہوا کرتا ہے اور وہ ہے طاقت کا بے دریغ استعمال۔ بہرحال، تماش بینوں کے لئےخوش خبری ہے، پکچر ابھی باقی ہے۔ ہم شو ڈائون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔میرؔ صاحب نے کہا تھا ’کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی...تختہ مگر کنارے کوئی بہہ کے جا لگے۔‘