ریاست ماں جیسی تو نہیں!

March 31, 2023

میرے راوین دوست چوہدری اعتزاز احسن نے 16 برس پہلے ایک نظم لکھی تھی ۔ پوری عدلیہ بحالی تحریک میں اس کا بڑا شہرہ رہا۔اسی تحریک میں ایک روز شاہراہِ دستور پر الیکشن کمیشن کے سامنے چوہدری اعتزاز احسن کو لاٹھیوں سے بچاتے ہوئے میں اور زمرد خان زخمی ہوئے تھے ۔ مجھے یاد ہے اس وقت بھی رمضان کا مہینہ تھا۔ لاٹھیاں برسانے والے اس وقت بھی روزے کا احترام بھول کر لاٹھیاں برسایا کرتے تھے ۔ آج بھی ماہ صیام میں لاٹھیاں برسانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اعتزاز احسن تو بڑے زور و شور سے یہ نظم پڑھا کرتے تھےجس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں!

دنیا کی تاریخ گواہ ہے

عدل بنا جمہور نہ ہو گا

عدل ہوا تو دیس ہمارا

کبھی بھی چکنا چور نہ ہو گا

عدل بنا کمزور ادارے

عدل بنا کمزور اکائیاں

عدل بنا بے بس ہر شہری

عدل بنا ہر سمت دہائیاں

اور دنیا کی تاریخ میں سوچو

کب کوئی منصف قید ہوا ہے؟

آمر کی اپنی ہی انا سے

عدل یہاں نا پید ہوا ہے

عدل کے ایوانوں میں سن لو

اصلی منصف پھر آئیں گے

روٹی کپڑا اور گھر اپنا

لوگوں کو ہم دلوائیں گے

آٹا ،بجلی، پانی، ایندھن

سب کو سستے دام ملے گا

بے روزگاروں کو ہر ممکن

روزگار اور کام ملے گا

ریاست ہو گی ماں کے جیسی

ہر شہری سے پیار کرے گی

اعتزاز احسن نے منزل کو بہت قریب دکھایا تھا مگر افسوس 16برس بیت جانے کے بعد بھی جمہور کو عدل نہیں مل رہا۔ ادارے کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ اکائیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں ۔ بے بسی شہریوں پر ہنس رہی ہے ۔ منصف مقید نہیں تو آزاد بھی کہاں ہیں ۔ آمرانہ چالیں اب بھی ہیں۔ اصلی منصف ابھی تک نہیں آئے۔ نہ ہی ابھی تک لوگوں کو روٹی، کپڑا اور گھر مل سکا ہے۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بجلی، پانی اور ایندھن بہت مہنگے ہو چکے ہیں ۔ آٹے کا حصول موت تقسیم کر رہا ہے ۔ بے روزگار ہنوز آلامِ روزگار میں الجھے ہوئے ہیں ۔ ریاست ابھی تک اپنے شہریوں سے ماں جیسا پیار نہیں کر رہی۔ ڈالے گھوم رہے ہیں ۔ لوگوں کے بچے اٹھائے جا رہے ہیں ۔ قائد اعظم کے خواب کی تعبیر ابھی تک نہیں ہو سکی۔ مذہبوں کی تقسیم نفرتیں بانٹتی پھرتی ہے ۔ تشدد کا راستہ ابھی تک نہیں رک سکا۔ ظالم کا ظلم باقی ہے ۔ غاصب دندناتا پھر رہا ہے ۔ جنتا کی عیش مر گئی ۔ وہ جو تھوڑا رستہ باقی تھا وہ کٹ ہی نہیں پا رہا۔ ظالم ڈر ضرور رہا ہے مگر ابھی تک بھاگا نہیں ۔ جیت ہمارا مستقبل ضرور ہے مگر یہ جیت ابھی ملی نہیں ہے۔

میں ابھی ابصار عالم کے بیٹے کو پہنچنے والی تکلیف سے افسردہ ہوں کہ میرے غموں میں اور اضافہ ہو گیا ہے ۔ پاکستان کے کئی شہروں سے کئی شریف لوگوں کے دس بارہ یا بیس برس کے بیٹوں کو اٹھا لیا گیا ہے ۔ ان پر تشدد ہو رہا ہے اور ان کو نفسیاتی مریض بنا دیا جائے گا ۔ کیا کوئی ماں اپنے بچوں سے ایسا سلوک کرتی ہے؟

میں نے بہت غور کیا ہے کہ ہمارے ہاں ریاست کا رویہ ماں جیسا کیوں نہیں۔ مثال کے طور پر ایک بندے نے گاڑی خریدی ۔ چند مہینوں بعد گاڑی چوری ہو گئی۔ گاڑی چوری ہونے کے بعد ریاست اسے ایک ایف آئی آر دے دیتی ہے اور پھریہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، جس کی گاڑی چوری ہوئی اس نے کئی برسوں میں پیسے جمع کر کے یہ گاڑی لی تھی ۔ گاڑی چوری ہونے کے بعد اس کے ہاتھ میں صرف ایک ایف آئی آر ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ریاست ایک نئی گاڑی لے کر اس کے حوالے کرتی مگر افسوس کہ ریاست یہ نہ کر سکی۔ اب ایک اور شخص کی مثال سن لیجئے اس کا بھائی قتل ہو گیا وہ ایف آئی آر درج کروانے گیا تو پولیس نے طاقت ورں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔ سفارش پہ کچھ کمزور افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔ اب وہ ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے تو پولیس پیسے مانگتی ہے ۔ پولیس سے فارغ ہوتا ہے تو کچہری میں بیٹھے ہوئے وکلاء کے ہتھے چڑھ جاتا ہے ۔ وہ بھی لمبی چوڑی فیسیں سناتے ہیں ۔ ریاست اس کے بھائی کو نہ بچا سکی ۔ اسے انصاف کے حصول کیلئے ٹھوکروں کے علاوہ پیسے بھی خرچ کرنا پڑ رہے ہیں ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ریاست قتل ہی نہ ہونے دیتی اگر ایک انسان قتل ہو ہی گیا تھا تو پھر اس کے بیوی بچوں کا نان نفقہ ریاست دیتی اور ریاست ہی حصول انصاف کا بندوبست کرتی مگر یہاں بھی ریاست ماں جیسا سلوک نہیں کر سکی۔

ریاست ماں ہوتی تو لوگ یہاں فاقوں سے مرتے ؟ ریاست ماں ہوتی تو بچے ان پڑھ رہتے؟ ریاست کا روپ ماں جیسا ہوتا تو لوگ بے روزگار ہوتے؟ ریاست ماں جیسی ہوتی تو لوگ بے علاج مرتے؟ ریاست ماں جیسی ہوتی تو آٹے کیلئے لائنیں لگتیں؟ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی ریاست نے ماں جیسا سلوک نہیں کیا۔ لوگوں کی حالت ریاست میں اعتزاز احسن کے ان اشعار کی طرح ہے کہ

بےکراں سمندر میں مختصر جزیرہ ہے

کشتیاں ہیں پتھر کی ، بادبان شیشے کا

اعتزازؔ یہ بستی سائے کو ترستی ہے

سارے چھت ہیں شیشے کے، سائبان شیشے کا