بدنیتی کی انتہا

April 01, 2023

بدنیتی ایک ایسا عمل ہے جو برے ارادے یا دھوکا دینے کی نیت سے انجام دیا جائے ۔ بدنیتی کی یہ تعریف شاید ہی کسی اور جگہ درست بیٹھتی ہو جتنی اٹھائیس مارچ کو قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں کی طرف سے پیش کئےجانے والے ’’سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ2023 پر۔ قانون اور انصاف کی قائمہ کمیٹی نے اس بل کی منظوری دی اور قومی اسمبلی نے اسے پاس کرلیا۔ مضمون کی اشاعت تک ممکن ہے کہ یہ سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قانون بھی بن چکا ہو۔کیا یہ پیش رفت عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کو درپیش لاتعداد مسائل کا حل ثابت ہوگی ؟ یا کیا یہ اس فوری چیلنج کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے جس کا حکومت کو سامنا ہے ؟ اس چیلنج کا تعلق سپریم کورٹ کے حکم اور آئینی تقاضوں کے مطابق نوے روز میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کےانتخابات کروانے سے ہے۔

یہ معاملہ اس وقت مزید متنازع ہوجاتا ہے جب انسان دیکھتا ہے کہ مجوزہ بل کا اصل ہدف چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرنا ہے ۔ اس بل کی منظوری کے بعد وہ اس وقت تک کسی معاملے میں از خود نوٹس نہیں لے سکیں گے جب تک وہ اپنے علاوہ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل آئینی کمیٹی قائم نہ کرلیں ۔ گویا وہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں رکھیں گے ۔ اس آرٹیکل کے تحت اصل اختیار دراصل کمیٹی کے رکن تین ججوں کی منظوری کے تابع ہوجائے گا۔

بہرحال قطع نظر اس کے کہ مجوزہ بل کا مواد کیا ہے اور یہ ریاست کے آئینی بازو کو درپیش بحرانوں کا کس حد تک مداوا کرسکتا ہے ، یہ بل پیش کرنے کی ٹائمنگ ہے جو اسے مشکوک بناتی ہے ۔ پنجاب اور خیبرپختونخواکی اسمبلیوں کے انتخابات نوے روز میں کرانے کےلئے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا لیکن فی الحال حکومت اس سے سرتابی کی مرتکب ہورہی ہے ۔اس پر حکومت کو توقع تھی کہ عدالت عالیہ اس کا براہ راست نوٹس لے سکتی ہے ۔ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ اسی کی پیش بندی کی کوشش میں یہ بل پیش کیا گیا ہے۔

اسے وفاقی وزیرداخلہ کے ایک بیان کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہئے جنہوں نے اپنے ایک انٹرویو، جو ملک اور بیرون ملک نشر ہوا، میں کھل کر کہا ہے کہ ’’حکومت اس حد تک جاچکی ہے(تحریک انصاف کی مخالفت کی وجہ سے)کہ اب دونوں بیک وقت نہیں رہ سکتے۔یا ہم رہیں گے یا تحریک انصاف ۔ ان حالات میں ہم اُن کا خاتمہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کیا ہمارے اقدامات قانونی ہیں یاغیر قانونی۔‘‘گویا عملی طور پر سیاسی تلخی اس خونی جنگ میں تبدیل ہونے جارہی ہے جس میں کسی ایک جماعت کا خاتمہ ہی دوسرے کی بقا ہوگا ۔ یہ بیان بہت زیادہ نشر ہوا ۔ اس کے مواد سے لا تعلقی اختیار کرنے یا اس کی تردید کی بھی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی ۔ عدالت عالیہ کے حکم پر انتخابات نہ کرنے کے تواتر سے دیے گئے بیانات کے بعد اب یہ بل پارلیمانی طاقت کے منفی استعمال کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے حکومت سپریم کورٹ کے آئینی حکم نامے کو سبوتا ژ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔

کچھ قانونی ماہرین کی رائے میں سپریم کورٹ کے عمل اور طریقہ ٔکار میں اس طرح کی تبدیلیوں کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ اسے محض پارلیمنٹ کی کارروائی سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کے پاس اس طرح کی آئینی ترمیم کے لئے مطلوبہ تعداد نہیں۔ دوسری صورت میں آرٹیکل 191 کے تحت ایسی کوئی بھی تبدیلی کرناعدالت عظمیٰ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے جس عجلت سے بل پیش کیا، اس سے حکومت کی بدنیتی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اس کا ہدف صرف چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔

اس معاملے کو ایک ایسی اسمبلی میں لے جانے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے کہ اس وقت اسمبلی اپنی لازمی تعداد کا نصف رکھتی ہے کیوں کہ تحریک انصاف نہ تو اس کا حصہ ہے اور نہ ہی اسے واپس آنے دیا جا رہا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اس بل کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوگی جو ایسی ترمیم کی منظوری کے لئے درکار ہے۔ لہٰذا ادھوری اسمبلی سے منظوری ملتے ہی اس بل کے پس پردہ ارادوں اور قانونی حیثیت کے فقدان کے حوالے سے تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔

اگرچہ نظام کو مزید شفاف، جوابدہ اور موثر بنانے کے لئے وسیع پیمانے پر عدالتی اصلاحات سے کسی کو انکار نہیں تاکہ یہ نظام عقیدے، ذات، رنگ، مسلک اور مالی حیثیت سے قطع نظر تمام طبقات کو انصاف فراہم کرنے کے قابل ہو۔ یہ اس کے آغاز کا طریقہ ہے جس نے اسے متنازع بنا دیا ہے۔ اگر حکومت اس اقدام کے بارے میں مخلص تھی تو اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل اتفاق رائے پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا جانا چاہئے تھا۔ اسے بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سمیت قانونی برادری سے بھی رائے طلب کرنی چاہئے تھی۔بلا شبہ میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت کی تائید کروں گا ۔ ان کی بہت ضرورت ہے اور بہت دیر سے ضرور ت ہے۔ لیکن انہیں اپنی جہت کے لحاظ سے جامع ہونا چاہئے اور پورے عدالتی نظام اور اس کی فراہمی کے طریقۂ کار کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے بجائے اس کے کہ کسی فرد کو اس کے اختیارات سے محروم کر دیا جائے کیونکہ اسے موجودہ حکومت ایک چیلنج کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس کی موجودہ شکل میں،اورجس انداز میں اسے پیش کیا گیا ہے ، اس سے حکومت کے عزائم کا کھل کے اظہار ہوگیا ہے جو وہ اس کی منظوری سے حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یقیناً معقولیت نامی جنس بہت کم یاب ہے۔