سر رہ گزر

April 02, 2023

یہ تیرا اسپتال ہے، یہ میرا اسپتال ہے

ویسے تو اس دنیا میں ہر چیز سانجھی ہے لیکن کچھ چیزیں بہت ہی سانجھی ہیں، مثلاً اسپتال وہ سانجھا مقام ہے جسے بگاڑنے سنوارنے میں ہم برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ جب یہ بنتا ہے تو اس طرح نہیں ہوتا جیسے اب ہے۔ البتہ ہم اس کی طرح نہیں ہوتے پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ بھی گزرنے لگتا ہے، کسی اسپتال کا بدترین حصہ اس کے واش رومز ہوتے ہیں، بشرطیکہ ان کا تعلق ایلیٹ کلاس سے نہ ہو یا اس کا تعلق کسی سرکاری عمر رسیدہ شفاخانےسے ہو۔ اسپتال کو صاف رکھنا اتنا ہی مشکل جتنا کہ وہ بزرگ ہو، کوئی مانے نہ مانے اسپتال کا مریض پر مثبت اثر پڑتا ہےکہ نرسیں لیڈی ڈاکٹرز سے زیادہ جاذب نظر ہوتی ہیں، اس لئے سوئی کی چبھن میں بھی پھبن، اسپتال کو دیدہ زیب رکھا جاسکتا ہے اگر اس کی ٹائلیں پوری ہوں، کسی ملک کے کلچر کو اس کے اسپتالوں اور مریضوں سے جانچا جا سکتا ہے۔ بہرحال تاحال ہمارے ہاں کوئی ایسا اسپتال نہیں کہ جسے دیکھ کر بیمار ہونے کو جی چاہے۔ ایمرجنسی وارڈ، ہفت عجائب وارڈ ہوتا ہے ہر رنگ نسل کا مریض حد نظر تک موجود، ایمرجنسی میں جب واقعی ایمرجنسی ہو تو ہر مسہری کے ساتھ ڈرپس اور جب ویران ہو تو ایک کونے سے دوسرے کونے تک خالی آہنی ستونوں کی قطار، بہرحال اونچے درجے کے مریضوں کے اسپتال دور سے نچلے درجے کے اسپتالوں کو پکارتے سنائی دیتے ہیں؟ یہ تیرا اسپتال ہے یہ میرا اسپتال ہے۔

٭٭٭٭

مَن و تُو

ایک ’’میں‘‘ ہی تو باقی رہ گئی ہے، وہ بھی تیری ہے یا میری ہے، اکثر لوگ کہتے ہیں چھوڑو بھی یہ خودستائی، یہ انا پرستی، حالانکہ ہمارے پاس ’’میں‘‘ کے سوا رکھا کیا ہے یہ بھی تج دیں تو تنہائی میں خود کو ٹٹولتے اور خود کلامی کرتے رہیں، ہم میں سے ہر ایک کےپاس ایک میں ہے، ہر چند کہ نہیں ہے، اس بے وجود میں کو بھی سنبھال رکھنا کہ یہ جھوٹ سچ ہے تو خود کو چھو لیتےہیں، یہ بھی کھو دیں تو نہ تیری میں نہ میری میں، جب زندہ میں نہیں رکھتے تو مردہ میں سے کیوں نہ دل بہلائیں، غور فرمائیں یہ جو رونق سی لگا رکھی ہے تو اسی میں نے لگا رکھی ہے، ورنہ اس جہان بے جہان میں کیا رکھا ہے، اپنی میں کو کچل دیا تو کیا پا لیا، اگر میں کا نام تکبر رکھ دیا تو تکبر تب بھی نہ ملا کہ بڑا ہونا صرف اس ذات باری تعلیٰ کو سزا وار ہے۔ کیا ہم ہر وقت یہ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ ہمارے دامن میں کچھ ہے یا یہ کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، عدم کو شکرانے کے نفل پڑھنے چاہئیں کہ اسے وجود عطا کردیا۔ کوئی ایسی عیاں چیز نہیں جسے بیان نہ کیا جا سکے، نہیں ایسا نہیں بلکہ جو عیاں ہے اسے بیان کرنے کی کیا حاجت۔ من وتو میں اگرچہ صرف وصل نہیں لیکن صرف وصل لانے سے اک گونہ صورت ملاپ پیدا کردی گئی۔

٭٭٭٭

وطن دوستی

وطن سے محبت نظریہ ہے اور نظریے کو زوال نہیں، کیونکہ اس میں زمین کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کی طاقت ہے، یہ کشش ہی نظریۂ پاکستان ہے۔ آج قومی سیاست گڈ مڈ کر دی گئی ہے اوریوں نظریہ وطن، سرزمین وطن میں کھو گیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تعلیم وتعلم میں نظریہ پاکستان کی تعلیم کو اس طرح سمو دیا جائے کہ یہ ہر پاکستانی کے رگ و پے میں سرایت کرجائے بلکہ لازم ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان باقاعدہ سبقاً سبقاً پڑھایا جائے، وطن دوستی کو اگر اسلامی نظریے کا پانی ملتا رہے تو ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا بہت گہرائی تک اتر جائے۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں ہنوز کافی کمی ہے اور اسلام کے سیاسی تصور کو کماحقہ ایک پاکستانی کے ذہن و فکر میں نہیں اتارا گیا، اس سلسلے میں ہمارے نصاب کا مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭٭