بحرانوں کا اژدھام اور ایوان عدل کا کردار

April 25, 2023

انصاف کا شمار اعلیٰ ترین عبادات میں ہوتا ہے کیونکہ انصاف کرنا خالصتاً اللہ رب قدیر کی صفات میں مقدم و محبوب صفت تصور کی جاتی ہے اور اس کی پیروی ہر منصف و محتسب کا فرض اور اس کے لئے دنیا میں تفویض کی گئی آزمائش ہے۔جو کوئی اس آزمائش پر پورا اترتا ہے، رب ذوالجلال کا قرب اور مرتبہ پاتا ہے لیکن جو اس منصب کو غرور و تکبر اور طاقت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہوئے خدائی صفت کی پیروی کرنے سے انکار یا گریز کرتا ہے اور اس منصب کا تصرف ذاتی فائدہ اٹھانے یا اسی نیت سے کسی با اثر یا مقتدر شخص یا ادارے کو خلاف ضابطہ اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے فائدہ پہنچاتا ہے، رب تعالیٰ کے قہر کو دعوت دیتاہے اور راندۂ درگاہ قرار پاتا ہے اور شیطان کے پیروکار کے طور پر ذلت و رسوائی اٹھاتا ہے۔عزت اور ذلت اپنے قبضہ قدرت میں رکھنے والے قادر مطلق کے دستور میں انصاف کلیدی اہمیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس منصب کی عطا کیلئے اپنی برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب کرتا ہے اور بظاہر برگزیدہ لیکن بعض سیاہ کار اور داغدار باطن کے حامل افراد کا باطن آشکار کرنے کے لئے منصف کا منصب عطا کرتا ہے اور کڑی آزمائش سے گزارتا ہے۔

انصاف وہ جو محسوس بھی کیا جائے اور دکھائی بھی دے بلکہ انصاف حواس خمسہ کی تمام قوتوں میں محسوس ہو، ہر حس میں دکھائی دے، ہر کان اس کی سہانی یا دلخراش آواز سنائی دے، اس کی خوشبو یا بدبو محسوس کی جا سکے،اس کا تلخ یا شیریں ذائقہ بھی چکھا جا سکے اور یہ اس قدر واضع اور ٹھوس ہو کہ اسے چھوا بھی جا سکے۔کیا ان منصفوں میں کوئی جنہیں رب قدیر کی جانب سے برگزیدہ ہستی کے طور پر یہ منصب عطا کیا گیا، انصاف کی اس تعریف پر پورا اترنے کی اہلیت رکھتا ہے؟ بلاشبہ اس نظام انصاف میں بھی اللہ رب العزت کی برگزیدہ ہستیاں موجود ہیں جو رب کریم کی جانب سے مقرر کردہ معیار و مقام انصاف کو سمجھتے اور عمل کرکے دائمی عزت و وقار اور مرتبہ پاتے ہیں جبکہ منکر احکام خداوندی کی حکم عدولی کے مرتکب دین و دنیا میں رسوائی اور روز حشر منکروں کی صفوں میں کھڑے ہوں گے۔

بحرانوں کے اس اژدھام میں عدل کے ایوانوں میں محاذ آرائی، گروپ بندی، انتشار، نفرت، عدم اعتماد اور سچ اور جھوٹ کے درمیان تصادم کا شور طشت از بام ہے اور دور دور تک سنا جا سکتا ہے جو دنیا میں ملک کی تضحیک و تمسخر کا باعث بن رہا ہے کیونکہ آئین کی حفاظت کا ذمہ دار ادارہ آئین سازوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔

سازشوں کے اس ماحول میں ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ان حالات میں یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کس کا فیصلہ درست ہے؟ حکومت کا ؟ یا عدلیہ کا ؟؟

اس سیاسی اور غیر سیاسی دھینگا مشتی میں عوام کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں لیکن کسی فریق کے پاس ایسے مدلل جواب موجود نہیں جن سے عوام مطمئن ہو سکیں اور اس بات پر یقین کر سکیں کہ پاکستان سلامت رہے گا اور یہ ایوان عدل کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

اس سارے بحران کے پیچھے کیا سازش ہے؟ تحریک انصاف کیوں جولائی2023سے قبل انتخابات کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے اور ایوان عدل کیوں انصاف کے نام پر ایک سیاسی جماعت کے اس ایجنڈے کی تکمیل کی حامی ہے؟

کیا یہ تاثر صیحح ہے کہ تحریک انصاف جولائی 2023 تک اور اسی سال اکتوبر میں عدالت عظمیٰ میں اعلیٰ ترین سطح پر تبدیلی سے قبل انتخابات مکمل کرانے اور عدلیہ میں کسی سطح پر مدت ملازمت میں توسیع کے ذریعے مستقل اقتدار حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، بالکل ایسی ہی خواہش کی تکمیل کیلئے اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمیدکو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کیلئے تمام تر جائز اور ناجائز راستے اختیار کئے گئے تھے جس کے لئے پاکستانی فوج کو تقسیم کرنے اور اس کے خلاف بھارت سمیت پاکستان کے دشمن ممالک کی معاونت سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی تھی؟

قطع نظر اس کے کہ ایوان عدل کے کئی فیصلوں میں انصاف ہوا اور نہ ہوتا دکھائی دیا اور 9 ارکان کا بنچ اختلافات کی نذر ہوتے ہوتے سکڑ کر 3 تک پہنچ گیا اور مسابقتی فارمولے کی بنیاد پر "منظور نظر" گروپ کے حق میں فیصلہ صادر ہو گیا جس میں نہ کہیں انصاف کی رمق تھی اور نہ ہوتا نظر آیا۔

لیکن کیا یہ درست نہیں کہ ہر سطح پر آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے اس’’چہیتے گروپ‘‘ کو کھلے عام قانون اور آئین شکنی کے علاوہ اعلان بغاوت اور ملک میں انتشار پھیلانے، عوام کو فوج اور ملک کے خلاف گمراہ کرنے جیسے سنگین مقدمات میں انصاف کا پلڑا ایک طرف جھکتا ہوا دکھائی نہیں دیا اور ان’’منظور نظر گروپ‘‘ سنگین ترین مقدمات میں کھلی جانبداری کے تحت رعایات نہیں دی گئیں؟