بھارتی امن کی آشا

June 04, 2023

(گزشتہ سے پیوستہ)

بھارتی سفیر لامبا کی کتاب In pursuit of Peace کا تجزیہ

ایک خونیں تقسیم کے باوجود، جس میں کانگریس پارٹی کی قیادت کیبنٹ مشن پلان کے ذریعے پیش کردہ ڈھیلی ڈھالی وفاقی اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے شامل ہوئی، ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا خطرہ متعلقہ اکثریتی فرقہ واریت کے عروج کےساتھ برصغیر کے تینوں (سابقہ) حصوں کو پریشان رکھے ہوئےہے۔ ایک ’’فوجی ریاست‘‘ کی طرف پاکستان کےارتقاکو ، جس کی بنیادبھارت کی طرف سے ’ابدی دشمن کے خطرے‘ پر تھی، مختلف آزاد اسکالرز پاکستان کا ایک"زیادہ ترقی یافتہ" ڈھانچہ(حمزہ علوی)اور فولادی ڈھانچہ(سوویت اسکالرز)قرار دیتے ہیں۔ اگر ہندوستان کو امریکہ کے ساتھ پاکستان کےاتحاد سے خطرہ محسوس ہوا تو پاکستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور اس نے اپنی بقا کیلئےجوابی تزویراتی صف بندی کی کوشش کی۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفارت کا ری کا اعلیٰ مرحلہ افغان اور کشمیر جہادوں کے معمارفوجی آمرجنرل ضیاءالحق اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ادوارمیں آیا جب جنرل ضیا دوستی ،عدم جنگ معاہدہ کیلئےتیارہوگئے تھے ۔اس معاہدہ کوحتمی شکل اندراگاندھی کی 'چوتھی شق اورپانچویں شق کے دوسرے حصے میں دوطرفہ بنیاد پر اختلافات کے حل پر اصرار اور بیرونی فوجی اڈے دینے پر بندش لگائے جانے کی بنا پر نہ دی جاسکی۔

راقم امریکی فوجی بلاکس میں پاکستان کی بطور طفیلی ریاست شمولیت کے خلاف ہوتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہےکہ ایک بڑے لیکن 'جارح مزاج ' پڑوسی کے ساتھ رہنے والے ایک درمیانے حجم کے ملک نے سوویت یونین اور بھارت مخالف اتحاد میں پناہ لے کر اپنی ’حفاظت‘ کا بندوبست کیا جو قومی سلامتی کی طفیلی ریاست بننے کا باعث بنا۔یہ علیحدہ بات ہے کہ بھارت بھی سوویت بلاک میں شامل ہوگیا اور اب امریکی قیادت میں چین کے خلاف چارریاستی اتحاد (QUAD) کا حصہ بن گیا ہے۔ لامبا اپنے پسندیدہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورمیں ان کے وزیرداخلہ لال کرشن ایڈوانی کی طرف سے نائن الیون کے بعد امریکہ کو فوجی اڈوں کی پیشکش کا ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ایک بڑے پڑوسی اور ممکنہ یا ’خیالی‘ ہندوستانی ’’خطرے‘‘اور اس کی بڑی فوجی طاقت کے مدنظر، وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر آنے والے تمام فوجی آمروں تک ،پاکستانی رہنماؤں نے بھارت کے حق میں فوجی عدم توازن کا مقابلہ امریکی قیادت میں فوجی بلاکس میں شامل ہو کر کرنے کی کوشش کی۔ لامبا کا یہ کہنا درست ہے کہ دو سپرپاورز کے درمیان سرد جنگ نے برصغیر کو مخالف کیمپوں میں مزید دھکیل دیا۔

1951کے بعد سے بین الاقوامی صف بندی میں تبدیلی کے ساتھ، پاکستان اور کشمیر کے بارے میں بھارت کی پالیسی کا معیار بدل گیا۔ اقوام متحدہ سے رجوع کرنے اور آرٹیکل 370 ،جسے مسلسل کمزور کیاجاتارہا اور آخر کار ختم کردیاگیا ،کی منظوری کے باوجود (اے جی نورانی کی آرٹیکل 370پر کتاب) ہم کشمیر کے بارے میں انڈین نیشنل کانگریس کے مؤقف میں بھی بڑی تبدیلی دیکھتے ہیں ،سفیر لامبا جزوی طور پر درست ہیں کہ کیسےپاکستان نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر زیادہ اصرار نہیں کیا تھا، لیکن ان کے پاس ایل او سی کے دونوں طرف رہنے والے تقسیم شدہ اور محکوم کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے متعلق بھارتی جمہوریہ کے جبری الحاق کا دفاع کرنے کا کوئی جمہوری جواز نہیں ۔ بھارت اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے والی طاقت بن گیا اور پاکستان نے کشمیر پر حقِ شفعہ کا دعوی کردیا کیونکہ دونوں ریاستیں مسئلہ کشمیر کو حق رائے دہی سے محروم لوگوں کے مسئلہ کی بجائے ایک علاقائی تنازع سمجھتی ہیں۔

اپنی کتاب میں، لامبا ہمیں پس ِپردہ سفارت کاری اور متعدد بیک چینلز کی پوری تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن جس چیز کو وہ آسانی سے بھول گئے وہ حقیقی مردِ امن آر کے مشرا کا وزارت ِ خارجہ سے بالا بالا وزیر اعظم واجپائی کےذاتی سفیر کے طور پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب بھیجا گیا امن مشن تھا جو جنرل مشرف کی کارگل میں مہم جوئی کے باوجود لاہور اعلامیہ پر منتج ہوا۔ مشرا کے مطابق، یہاں تک کہ کشمیر کے علاقے کے نقشے بھی براہ راست واجپائی کو فراہم کئے گئے تھے جو اپنی امن پہل کاری کو اپنی اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ واجپائی پاکستان میں فوجی بغاوت سے بہت زیادہ برافروختہ ہوئے تھے۔ پھر بھی، انھوں نے آر کےمشرا سے کہا کہ وہ صدر مشرف کے ساتھ نئے سرے سے بیک چینل ڈپلومیسی شروع کریں۔ بعد میں جب ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے واجپائی کے ساتھ مشاورت سے مفاہمت کا عمل پھروہیں سےشروع کیا جہاں انھوں نے اسے چھوڑا تھا۔ درحقیقت، یہ ایک غیر معمولی پیش رفت تھی جس کا حاصل کشمیریوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری، جموں اورکشمیر کے دونوں اطراف کے درمیان ایک مشترکہ میکانزم، اور شہری علاقوں میں فوجی دستوں کی موجودگی کےساتھ ایل او سی کو نقشے پر صرف ایک لکیر بنانا ہوتا۔

بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ سفارتکاری کی پریشان کن تاریخ جنگوں سے لے کر امن اور نہ جنگ ،نہ امن کےطویل وقفوں جیسے اتار چڑھائو سے بھری پڑی ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اٹل دشمنی کے کرم خوردہ نظریوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئےپرامن پڑوسیوں کے طور پر رہنے اور اپنےدائمی اور عارضی تنازعات کاحل تلاش کرنے کی راہ لیں۔ امن ایک آپشن نہیں ہے۔ہماری ریاستوں کے پڑوسی ہونے کے ناتے تاریخی و جغرافیائی مجبوری اور معاشی ضرورت ہے۔

(مضمون نگار فری لانس صحافی اور سیفما کے سیکرٹری جنرل ہیں) ترجمہ: وقار مصطفیٰ