صنعتی پالیسی کے اشاریے

June 10, 2023

(گزشہ سے پیوستہ)

پاکستان کیلئے صنعتی پالیسی کا حتمی مقصد بہتر مصنوعات تیار کرتے ہوئے مسابقت کے میدان میں قدم رکھنا ہونا چاہئے۔ یہ صنعتکاروں کیلئے زیادہ منافع، محنت کشوں اور ہنر مندوں کیلئے بہتر تنخواہوں اور کام کرنے کے زیادہ سازگار حالات کاباعث بنے گی۔ حکومت کے محصولات میں اضافہ ہو گا، قیمتوں کو استحکام ملے گا، زر مبادلہ کی بچت ہو گی (کیوں کہ صنعتکار درآمدی اشیا میں مسابقت کے قابل ہوں گے)۔ غیر ملکی اشیا کے بہتر متبادل مقامی طور دستیاب ہوں گے۔

صنعتی پالیسی 2.0کے تحت حکومتی مداخلتوں کا کام شعبے کی کاروباری توانائیوں کو مسابقتی میدان فراہم کر کے فعال کرنا اور ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعات کی طرف منتقل کرنا ہے جن کی ملکی اور بیرونی منڈیوں میں مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کاوش کا اہم سنگ میل وسائل کی بجائے ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی زور غیر ضروری اور سخت ضوابط اور ٹیکس وصولی کے مہنگے نظام کو ختم کرنا، پیداواری شعبوں میں تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا، ہنر مند اور تربیت یافتہ افرادی قوت اور انفراسٹرکچر فراہم کرنا ہے۔ ان پٹ اور آؤٹ پٹ کی قیمتوں کے ذریعے منڈیوں پر اثر انداز ہونے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ مارکیٹ کے ڈھانچے کو کسی دھڑے کی یا انفرادی اجارہ داری، ملی بھگت، کارٹیل اور دیگر مشکوک اور عیب دار ہتھکنڈوں سے پاک کرنا ہو گا۔ نئے آنیوالوں کیلئےفعالیت کے سائز کو بڑھانے کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کا خاتمہ ضروری ہے۔

پاکستان کی ترقی پسند صنعتی پالیسی کے مرکزی اجزا مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:1۔ جدت :تیز رفتار تکنیکی تبدیلی نئے مسابقتی میدان میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جدت اور پیداواری ترقی ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان میں ترقی اور تحقیق پر پہلے ہی بہت کم رقم خرچ کی جاتی تھی لیکن گزشتہ دہائی میںیہ جی ڈی پی کے 0.32 فیصد سے کم ہو کر 0.28 فیصد رہ گئی۔ نجی اور سرکاری، دونوں شعبوں میں سائنسی تحقیق اور ترقی کیلئے سپورٹ پروڈکشن اسٹرکچر اور پروسیسز کو تبدیل کرنےکیلئے طلب کی بنیاد پر ترجیحات اور ٹیکنالوجی کو سب سے زیادہ توجہ اور وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارہ جاتی مہارت، یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان رابطہ، پیٹنٹ کا حصول اور اسٹیک ہولڈر کی شمولیت سے فائدہ مند نتائج برآمد ہوں گے۔ گرین ٹیکنالوجی اور کلین انرجی کی طرف منتقلی، موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کی موافقت اور تخفیف اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے کہ اے آئی، روبوٹکس، ڈیٹا اینالیٹکس وغیرہ کو تحقیق اور ترقی کے پروگرام کے اہم اجزا ہونے چاہئیں۔ فرموں کو ملک میں تحقیق اور ترقی کیلئے مالی مراعات دی جائیں جو ان کی تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہیں اور انھیں نئی اختراعی تکنیکوں کو اپنانے کے قابل بناتی ہیں۔ ایک انوویشن ڈویلپمنٹ چیلنج فنڈ اس مقصد کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔2۔ادارے:معاشی نظم و نسق کے ذمہ دار اداروں کو فیصلہ سازی اور مالی وسائل کی اختیارات منتقلی کے ذریعے مضبوط بنایا جائے۔ خود مختاری دے کر نتائج کیلئے جواب طلبی کی جائے۔ ریاست کو کاروبار چلانے سے گریز کرتے ہوئے نجی شعبے کو برابری کی سطح پر مقابلہ کرنے کی اجازت دینی چاہئے۔ ریاست کا کردار سہولت کار، فعال اور فروغ دینے بلکہ بنیادی عوامی اشیا اور خدمات کو سستی اور موثر انداز میں فراہم کرنے کا بھی ہونا چاہئے۔ ٹیکنالوجی پارکس، انکیوبیشن سینٹرز، خصوصی اقتصادی زونز، علم، ہنر اور مشترکہ خدمات کی فراہمی کیلئے کلسٹرز تشکیل دے سکتے ہیں جسکے نتیجے میں معیشتوں کے درمیان ربط قائم ہوتا ہے۔ مخصوص اور بکھری ہوئی پیداواری صلاحیت کے درمیان تعلق اب عالمی ویلیو چینز کی صورت غالب دکھائی دیتا ہے۔ اس نے صنعتی اور برآمدی سرگرمیوں کی حرکیات کو تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کواس سلسلے میں مخصوص مصنوعات تلاش کرنا ہوں گی۔ ان کلسٹرز میں کوالٹی ٹیسٹنگ لیبز، معیاری میٹرکس کا استعمال اور ایس ایم ای سپلائرز اور وینڈرز کیلئے توسیعی خدمات بھی ہوں۔ یہ کلسٹرز پاکستانی اور غیر ملکی فرموں کے درمیان مشترکہ منصوبوں کیساتھ ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے، نئی صلاحیتوں کو بڑھانے اور نئی منڈیوں اور مارکیٹوں کی تلاش کے عمل میں تیزی لائیں گے۔ 3۔ ٹیکس اور عدم مرکزیت :رسمی صنعتی شعبہ حد سے زیادہ ضوابط اور بھاری ٹیکسوں کا شکار ہے۔ تقریباً دو تہائی ٹیکس مینو فیکچرنگ سیکٹر سے وصول کئے جاتے ہیں جو کہ جی ڈی پی کا 13فیصد بنتا ہے۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی طرف سے تعمیل کیلئے درکار قوانین، قواعد و ضوابط اور این او سی کی ضرورت نے کاروبار کی لاگت میں اضافہ کر کے نئے آنے والوں کے داخلے کو روک دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسابقتی قوتیں سامنے نہیں آ رہیں۔ ٹرن اوور پر مبنی ٹیکس نئے آنیوالوں کیلئے رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں صنعت کاری کا خاتمہ ہو رہا ہے ۔ مینو فیکچرنگ میں جی ڈی پی کا حصہ جمود کا شکار ہے۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹریز پر ٹیکس اور ریگولیٹری بوجھ کو کم کرنے سے موجودہ فرموں کو اپنے آپریشنز بڑھانے اور نئی کمپنیوں کو ان سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع ملے گا جو منافع بخش ہوں گی۔ بڑے پیمانے پر فرمیں زیادہ پیداوار دیتی ہیں جو صنعتی معیشتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ ذیلی شعبوں اور نئی منڈیوں میں رسائی کیلئے ایکسپورٹ سبسڈی اسکیموں کو معقول بنانا ہو گا۔ مینو فیکچرنگ سیکٹر کے استحکام، سرمایہ کی تشکیل، اسکیلنگ اپ اور توسیع کو فروغ دینے کا ایک طریقہ انٹر کارپوریٹ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس ہٹانا ہے۔ (جاری ہے)