نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے پس منظر میں اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ عالمی سطح پر وبائی امراض کے پھیلاؤ، موسمیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کے بحرانوں نے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ ایسے ممالک کو ترقیاتی اہداف کے حصول میں وسائل کی کمی کا سامنا ہے جبکہ پائیدار ترقی کے لئے یکساں مواقع ضروری ہیں۔ اس معاملے میں غریب ملکوں کے ساتھ غیرمنصفانہ رویہ نہیں رکھنا چاہئے ۔ ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھی ایک رپورٹ میں ان کے خیالات کی تائید کی ہے اور پیشگوئی کی ہے کہ سیاسی عدم استحکام، ناگہانی آفات اور عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے سے پاکستان مشکلات کا شکار ہے۔ رواں مالی سال میں بھی بجلی، گیس پیٹرول اور ڈیزل کے بڑھتے ہوئے نرخوں سے معیشت پر دباؤ برقرار رہے گا۔ رواں مالی سال مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 7.5 فیصد اورٹیکس ریونیو 10.3 فیصد کے مساوی رہنے کی توقع ہے ایسے میں اقتصادی اصلاحات پروگرام اور 2024 میں عام انتخابات سے قوم کے اعتماد میں اضافے کی توقع ہے اور سرمایہ کاری بڑھے گی جو ملکی معیشت کے لئے اچھی خبر ہے۔ لیکن مشکلات پھر بھی کم نہیں ہوںگی۔ اس لئے مالیاتی استحکام کے لئے غیر معمولی اقدامات، توانائی اور ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات، مالیاتی پالیسی میں بہتری اور نجی سرمایہ کاری کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔ پچھلی حکومت نے اس مقصد کے لئے جو اقدامات کئے ان میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لئے معاہدے شامل ہیں جن پر مختلف حلقوں کی جانب سے بڑی لے دے ہوری ہے اور کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط مان کر ملک کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جبکہ اقتصادی ماہرین کا ایک مکتب فکر اس اقدام کو ملک کی معاشی سمت درست کرنے کی جانب درست فیصلہ قرار دے رہا ہے۔ خود آئی ایم ایف کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے اس کی ترجمانی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے نیویارک میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات کے بعد ایک گفتگو میں کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے جو اقدامات کئے ہیں وہ اپنے عوام کے مفاد میں ہیں، ان اقدامات کا مقصد معیشت کی بحالی اور ماضی کی غلطیوں کو سدھارنا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے شکایات موجود ہیں لیکن ہم پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کے تمام لوگوں کو ایک سادہ سا پیغام دینا چاہتی ہوں کہ ہم پروگرام کے ذریعے صرف یہ تقاضا کررہے ہیں کہ امیر لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کریں اور پاکستان کے غریبوں کو بچائیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے غریب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کا نقطہ نظر تو یہ ہے لیکن عملاً پاکستان میں ٹیکسوں اور لیویز کا جس انداز میں نفاذہورہا ہے اس سے امیروں پر تو شاید ہی کوئی فرق پڑتا ہو مگر غریب بری طرح پس رہے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق امیر طبقہ محسوس اور غیر محسوس انداز میں اپنا بوجھ بالآخر غریب طبقوں پر منتقل کردیتا ہے جبکہ غریب بے بسی سے منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف عوام کے مظاہرے اس کا عملی ثبوت ہیں۔ بجلی کی چوری میں زیادہ ترصاحب ثروت طبقہ ملوث بتایا جاتا ہے اور لائن لاسز افسر شاہی کے اغماض کا نتیجہ ہے لیکن اس سے ہونے والے اربوں روپے کے نقصانات عام آدمی کے بلوں میں شامل کئے جارہے ہیں۔ یہ ایک ادنیٰ مثال ہے جبکہ ایسی ہزاروں مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف مہم کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت کم ہونا، اشیائے خوردنی کی ذخیرہ شدہ لاکھوں بوریاں برآمد ہونا اور سینکڑوں افراد کی گرفتاریاں ایسی ہی مثالیں ہیں جنہیں سامنے رکھ کر ارباب اقتدار حالات پر قابو پاسکتے ہیں۔