عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی حالت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت 12کروڑ50لاکھ افراد غربت میں جکڑے ہوئے ہیں، بیروزگاری کی شرح دوگنی ہو کر 12.2فیصد ہوگئی ہے، سرکاری شعبہ غیر موثر، ٹیکس نظام تنگ، مسخ شدہ اور غیر مساوی ہے، بچوں کی نشو و نما میں غیر معمولی رکاوٹیں ہیں اوروہ ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے کم از کم اصلاحاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے وسیع البنیاد پالیسی میں تبدیلی لانے کی اہم ضرورت ہے۔ عالمی بینک نے ’’روشن مستقبل کے لئے اصلاحات، فیصلہ کن وقت‘‘ کے عنوان سے ایک مسودے کا اجرا کیا ہے جس میں کم انسانی ترقی، غیر پائیدار مالیاتی صورت حال، زراعت، توانائی، نجی شعبہ جات کو ضابطے میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات اور دیگر اقدامات آئندہ حکومت کے لئے ترجیحی قرار دیئے گئے ہیں۔ عالمی بینک نے پانچ بڑے شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے قومی سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازوں سے کہا ہے کہ وہ میثاق معیشت کے لیبل کو چھوڑیں اور بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا کریں۔ پراپرٹی، زراعت اور کاربن کے اخراج پر ٹیکس لگائیں۔ براہ راست ٹیکس بڑھائیں، جنرل سیلز ٹیکس پر انحصار کم کریں۔ ٹیکس وصولیاں جی ڈی پی کے 5فیصدتک بڑھانے اور اخراجات 2.7فیصد تک کم کرنے ہوں گے۔ عالمی بینک نے سرکاری اداروں کی بہتری، موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت رکھنے والے انفراسٹرکچر کی تعمیر، برآمدات اور سرمایہ کاری بڑھانے اور بچوں کی نشو و نما میں رکاوٹ سے نمٹنے کے لئے مربوط حکمت عملی تیار کرنے کے اہم اقدامات بھی تجویز کئے ہیں۔ بلاشبہ وطن عزیز کو مہنگائی، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، موسمیاتی تبدیلی، ناکافی وسائل اور سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے جس کی عالمی بینک نے درست نشاندہی کی اور صائب مشورے دیے ہیں۔ قومی سیاسی اور عسکری قیادت کو بھی موجودہ معاشی صورت حال کا ادراک ہے ۔ بہر حال ان تجاویز پر عملدرآمد پاکستان کو خود کرنا ہے اوربحرانوں سے نکلنے کی تدبیر کرنی ہے۔