سر رہ گزر

September 24, 2023

لیول پلیئنگ فیلڈ

لیول پلیئنگ فیلڈ، مہنگائی کی زد میں آئے عوام کو جس قدر درکار ہے سیاستدانوں کو نہیں، 76برس ہوگئے کہ یہاں میدانی سیاست کو رولر پھیر کر ہموار بنا دیا گیا ہے جو آیا گوہر مراد لے کرگیا اور پرچم کسی اور کو تھما گیا، اتنے سارے برسوں میں عوام کا یہ حال ہوگیا کہ ؎

راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے

لٹے پٹے لوگ اب مزید اسی طرح خاموش رہے تو قبرستانوں کی بہتات ہو جائے گی اور 25کروڑ افراد کی قبریں دیکھنے سیاح آئیں گے، سرمایہ کار نہیں آئیں گے نہ ہم امپورٹ کر سکیں گے، نہ ایکسپورٹ، پاکستان کو اگر کسی سیارے سے دیکھا جائے تو ہماری سرزمین چاند اور باوردی ستارے اس کے گرد نظر آئیں گے، اور افق پر شہیدوں کا شفق رنگ لہو دکھائی دے گا، بے حسی اور ماحول کی زبوں حالی کا کب 25کروڑ کلمہ گو قوم نے نوٹس لیا ہے۔ ٹیکس ملازمین دیتے ہیں یا غریب پاکستانی ، اشرافیہ کو ٹیکسوں سے استثنا حاصل ہے، کہئے لیول پلیئنگ فیلڈ کس کے پاس ہے، حق سچ لکھنے کا موسم کب آئے گا، اور ہم اشرافیہ جس کے بے شمار طبقے ہیں انہیں چینلز پر بٹھا کر اگرچہ ان سے سوالات کرتے ہیں مگر انجانے میں ان کو شہرت دیئے جاتے ہیں، اسی لئے وہ کڑوی کسیلی باتیں سننے کےلئے جوق در جوق اپنی فرمائش پر ا سکرینز پر جلوہ گر ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے چہرے لوگوں کو ازبر ہو جاتے ہیں، کسی بھی سیاسی فرد کی سیاسی اور دوسرے لفظوں میں زبانی و کاغذی معرکے سر کرنے کی داستان ،جو بٹن بھی دبائوخیبر سے کراچی تک سننے کومل جاتی ہے آخر یہ فیلڈ کو کھیلنے کے لئے لیول کرنے میںمیڈیا کیوں اپنا حصہ ڈالتا ہے؟ بہرحال کہنے لکھنے کوتو بہت کچھ ہے جو سب جانتے بھی ہیں کہ کھلاڑیوں، اناڑیوں کو اپنا گھر بھرنے کے لئے ہموار میدان بہرصورت چاہئے ۔ عرض کیا ہے

ہمارے سروں کا میدان کتنا ہموار ہے

کھیلیں ہم سے یہ سر بوجھ اٹھانےکو تیار ہے

٭٭٭٭

تشدد ڈرامہ

اردو ادب کے موضوعات قابل غور و تحقیق ہیں، ڈرامہ نگاری ہی کو لے لیجئے ایک عرصہ ہوگیا کہ ہمارے ڈرامے ازدواجی دائرے میںپھنس کر رہ گئے ہیں، آخر موضوعات کی تو کمی نہیں، معاشرے میں جو ڈرامے چل رہے ہیں کیا ان کے باوجود نکاح و طلاق اور میاں بیوی کی ہولناکیوں سے کب ہمارا ڈرامہ یا ڈرامہ نگار آزاد ہوگا۔ بس کرو یار کوئی اچھوتا آفاقی قسم کا مرکزی خیال بھی پیش کرو، جو ہمیں اس جھنجھٹوں بھری زندگی سے کہیں پرسکون دنیا میں لے جائے، جہاں کچھ اچھا سیکھنے کو ملے، یہ ایکشن ڈرامے کیوں مسلط کر دیئے گئے ہیں اور کیا اس ملک میں کوئی ہے جس نے ڈرامہ کے موضوع پر سیر حاصل کام کیا ہو، یہاں اداکار بھی ’’جماندرو‘‘ ہوتے ہیں جنہیں کسی ایکٹنگ اکیڈمی جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خدا کا واسطہ ہے شیکسپیئر، موپساں اور اپنے سعادت حسن منٹو ہی کی ڈرامائی و افسانوی فکرسے استفادہ کریں اور ایسا کچھ تحریر کریں جو کسی اور جہان میں لے جائے، اپنی گلیوں محلوں کی وارداتوں، لڑائیوں اور بے معنی غیرت کو موضوع نہ بنائیں۔ انسانوں کو ذہنی آسائش یا روح کی غذا دیں، ہمارے ہاں ڈراموں میں تشدد کی نیرنگی کا یہ عالم ہے کہ نئی نسل کے لڑکوں، لڑکیوں کو شوہر، بیوی، بننا ہی بھول گیا۔ اگر بے جا آزادی اور اولاد کو کھول دینا ہی ڈرامہ ہے تو اچھا ہے کہ ایسی تحریر کو تحریر (آزاد کرنا) کردیا جائے، معذرت کے ساتھ اہل قلم کہیں نااہل قلم کی مجلس میں تو نہیں بیٹھ گئے، ڈرامہ اگر ایک اچھا خیال اوربہتر فکر نہیںدیتا تو ہم یہ سمجھیں کہ قلم کو قلم کردیاگیا، یہ خون ناحق کس کی گردن پر ہے کہ گھروں میں ڈرامے چلنے لگے، ڈرامہ ایک ایسی چلتی پھرتی کہانی ہے جس کا دائرہ فکر آسان لفظوں میں نئے افق متعارف کرتا ہے، بیوی کو شوہر یا تو بالکل کھلا چھوڑ دیتا ہے یا اسے سرعام زور دار تھپڑ رسید کرتا ہے۔ بچے ایسے مناظر دیکھ کر دہرائیں گے۔ خدا را تشدد کے بجائے ڈرامے میں اعتدال پیدا کریں۔

٭٭٭٭

انگریزی، انگریزوں سے بولیں

ہم نے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اپنے ہم زباں لوگوں سے انگریزی میں بات نہیں کرتے، ہاں ایسے مردو زن بکثرت دیکھے ہیں جو خواہ مخواہ اپنے ہم زبانوں پر اپنی گلابی انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں، انگریزی بولنے والوں کی زبان کا کمال نہیں یہ ان کی محنت و ذہانت ہے کہ آج پوری دنیا میں دھوم انگریزی زباں کی ہے۔ کسی نے ہم سے پوچھا پاکستان کا نظام کیسے درست ہوگا، جواب دیا جب سارا نظام قومی زبان میں ڈھل جائیگا، افسوس کہ اردو اور عربی بولنے والوں نے دنیا کا نظام انگریزی بولنے والوں کے حوالے کردیا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہماری یعنی مسلم امہ کی ایجادات موجود نہیں، ہم نے کیوں اپنا تن من دھن ان کے حوالے کردیا جن کے پاس اسلام جیسا ضابطہ حیات ہے نہ تحریف سے پاک کتاب۔ جب بھی کوئی دوسرے سے اردو میں بات کرتے ہوئے بار بار انگریزی الفاظ اور جملے بولتا ہے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطب پر خود کو مسلط کرنا چاہتا ہے، یہ حرکت درست نہیں۔ ہماری اردو بہت فصیح و بلیغ اور چھیل چھبیلی ہے، ولی دکنی، غالب، آتش، داغ سے لیکر عہدہ حاضر کے اردو شعراء تک ایک فکر و لفظ کی کہکشاں ہے جس پر چل کر ہم عروج پا سکتے ہیں، حضرت داغ دہلوی نے کیا کہا تھا اپنی زبان اردو بارے کہ؎

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ انگریزی زبان نہ سیکھیں لیکن جب کوئی دوسرے کی ماں کی عزت کرتا ہے تو پہلا حق تو اپنی حقیقی ماں کا ہے۔ اس لئے اردو کو واقعتاً ترجیح دینا چاہئے۔ خدا کرے کہ ہمارا سارا نظام اردو میں ہو، ہمارے حکمراںفخر سے اردو میں بات کریں اور ترجمان اسے ترجمہ کرکے پیش کرے۔

٭٭٭٭

شیخ رشید کی لال حویلی سیل

...Oاگر تو شیخ صاحب نے یہ لال حویلی اپنی بار بار کی وزارتوں کے زور پر اپنی ملکیت بنائے رکھی تو اب وہ زور تو نہ رہا لہٰذا کیا ضرورت کہ محض سگار کے زور پر وہ قبضہ جمائے رکھیں۔ اگر یہ متروکہ وقف جائیداد ہے تو وزارت اوقاف کو اس کی قیمت دے کر ’’ٹنٹا مکائیں‘‘۔

...Oنعیم پنجوتھا: عمران جیل میں گھبرائے نہیں کہتے ہیں یہ ماحول فائیوا سٹار ہے۔

اگر کوئی گھبرائے نہیں اور من و سلویٰ بھی ملتا رہے، ماحول بھی ساز گار ہو تو اس طرح جیل محل نہیںبن جاتی، جیل ہی رہتی ہےا ور اندرونی کہانی تو خان صاحب ان جیل کی یہ ہے کہ : دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

...Oناصر شاہ:بلاول سب کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں۔

کچھ پانے کیلئے گھر کے سارے افراد کا نام لینا پڑتا اس طرح مطالبہ زور پکڑتا ہے اور دل کی مراد بر آتی ہے۔

...Oکسی نے مجھ سے کہا کہ اب چینلز میں دوپٹے نہیں رہے۔

ہم نے جواب دیا یہ بات نہیں دراصل کچھ ایسی ہوا چلی کہ دوپٹے اڑا لے گئی۔

٭٭٭٭