شفاف انتخابات کیسے؟

September 26, 2023

عام انتخابات کی تاریخ کاباقاعدہ اعلان ابھی نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن نے صرف مہینے کی نشاندہی کی ہے جو جنوری 2024 ہے۔ بے یقینی کے اس عالم میں سیاسی پارٹیوں نے باقاعدہ انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی۔ اکا دکا سیاسی اجتماعات البتہ ہورہے ہیں جو انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی باقاعدہ مہم کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اس دوران یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ بعض پارٹیاں یا ان کے لیڈر قانونی طور پر الیکشن میں حصہ لے بھی سکیں گے یا نہیں اور ان کے بغیر جو انتخابات ہوئے وہ رائے عامہ کو کس حد تک قبول ہوں گے؟ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی کا حوالہ خصوصی توجہ کا حامل ہے ۔ نواز شریف کو کچھ قانونی مسائل درپیش ہیں جن سے نمٹنا ہوگا جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں جن کی موجودگی میں ان کی انتخابات میں شرکت پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان پر الگ بحث چل پڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بغیر بھی ملک میں شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں۔ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جبکہ پارٹی میں شامل ہزاروں افراد جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی بات غیرمعقول ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر چیئرمین پی ٹی آئی کا مقررکردہ ہے۔ وہ کیوں دھاندلی ہونے دے گا۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کو کسی سیاسی مقصد کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ چیئرمین پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاستدان کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی پر قانون کی عملداری یقینی بنائی جائے گی۔ نگران وزیراعظم کے اس بیانیے پر پی ٹی آئی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چیئرمین یا پارٹی کے بغیر الیکشن غیرآئینی ہوں گے جنہیں قوم قبول نہیں کرے گی اور ان کے نتائج تباہ کن ہوںگے۔ غیرمعمولی عوامی تائید کی حامل سیاسی قیادت اور جماعتوں کو مصنوعی، غیرجمہوری اور غیر آئینی طریقوں سے انتخابات سے باہر کرنے کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے وزیراعظم کے بیان پر ردعمل رسہ کشی کے موجودہ سیاسی ماحول کا شاخسانہ ہوسکتا ہے جس میں بعض پارٹیاں فوری اور بعض تاخیر سے انتخابات کے انعقاد کی وکالت کررہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس پر تلخیاں بڑھ سکتی ہیں لیکن نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر عمومی اتفاق رائے سے یہ خدشہ ٹل گیا ہے تاہم 9 مئی کے افسوسناک واقعات میں ملوث پی ٹی آئی کے بعض لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات فیصلہ طلب ہیں۔ یہ فیصلے عدالتوں نے کرنے ہیں۔ اگر کوئی فیصلہ ایسا آگیا جو پی ٹی آئی کے لئے قابل قبول نہ ہو اور جس کے نتیجے میں چیئرمین پی ٹی آئی یا دوسرے سرکردہ لیڈروں کی انتخابات میں شرکت ناممکن ہوگئی تو انتخابی ماحول پرا گندہ ہوسکتا ہے۔ نگران وزیراعظم نے چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر بھی شفاف الیکشن ہونے کا جو بیان دیا ہے اس پر ہونے والی بحث سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں ایک کے سوا اب تک ہونے والے کسی بھی الیکشن کو ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے قبول نہیں کیا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے جس سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید تشنہ تکمیل ہی رہے گی اور سیاسی استحکام نہ آیا تو ملک کی معاشی حالت بھی سنبھل نہیں پائے گی جبکہ معاشی استحکام سیاسی اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔