عالمی بینک کے مشورے

November 30, 2023

وطن عزیز کی معاشی کیفیت جہاں بیرونی مالی امداد کی متقاضی ہے وہاں مشوروں اور شرائط کی اپنی اہمیت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط مشکل ضرور تھیں مگر ان شرائط کو ماننے کے بعد ہی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور قسط کے اجراء کی صورت پیدا ہوئی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ شرائط کی تکمیل ہی کے باعث معیشت کو کڑے نظم و ضبط میں لانے کے عمل کا آغاز ہوا جبکہ آئی ایم ا یف کی طرف سے آنے والی اچھی رپورٹ دیگر قرضوں کا راستہ کھلنے کی کلید ثابت ہوئی۔ اب عالمی بینک کی جانب سے ’’پالیسی نوٹ‘‘ کا اجرا ہوا ہے تو اسلام آباد میں منعقدہ اس کی تقریب میں جہاں کنٹری ڈائریکٹر کی طرف سے رواں مالی سال میں دو ارب ڈالر ملنے کی نوید دی گئی وہاں مسائل کی نشاندہی کے ساتھ تجزیئے اور مشورے بھی دیئے گئے۔ پالیسی نوٹ میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ ملک جو 1990ء تک خطے میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے اوپر سے دوسرے نمبر پر تھا، اب نیچے سے دوسرے نمبر ہے۔ عالمی بینک کے نائب صدر مارٹن ریزر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 2سے 3فیصد تک بڑھانی ہوگی۔ اخراجات اور ٹیکس اصلاحات پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زرعی شعبے کی پیداوار بڑھا کر اس پر ٹیکس لگانا ہوگا، ٹیکس کی عدم ادائیگی اور بدعنوانی ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مارٹن ریزر نے پاکستان میں عام انتخابات سے قبل عوام، سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازوں کے ایک جامع پالیسی ڈائیلاگ کا اہتمام کرنے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا فائدہ معاشی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے نظام کی خرابیاں دور کرنا اور موثر اصلاحات کرنا ہوگی۔ اس موقع پر یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ بڑی بڑی زمینوں کے مالک جاگیردار اپنی آمدنیوں پر ٹیکس نہیں دے رہے، صنعت کاروں نے خود کو من پسند پالیسیوں کے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے کم ٹیکس دیتے ہیں۔ اسی طرح مزید ایسے طبقات ہیں جو حکومت سے سبسڈیز حاصل کرتے۔ مگر ٹیکس نہیں دیتے ۔کہا گیا کہ بوسیدہ ٹیکس اسٹرکچر کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال ایک تہائی ٹیکس وصولیوں کا نقصان ہوتا ہے، مزید فرموں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کیلئے تمام صوبوں میں جی ایس ٹی نظام ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے، زمین اور جائیداد پر ٹیکسوں میں اضافے سے ایک طرف ٹیکس ریونیو بڑھے گا تو دوسری جانب پیداواری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ ’’پالیسی نوٹ‘‘ میں جوتجاویز دی گئیں، ان میں فنانس کمیشن اور اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کے نکات بھی شامل ہیں۔ کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی اچھا اقدام مگر سرمایہ کاری کی مجموعی فضا بہتر بنانا ہوگی۔ ٹیکس کی مقدار دگنا کرنے کے اقدامات روبہ عمل لانے، اخراجات میں 10فیصد کٹوتی کرنے، وسطی اور بالائی سطح کے ملازمین کی تنخواہیں موجودہ سطح پر منجمد کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے۔ واضح کیا گیا کہ ان اقدامات کا فائدہ اسی وقت ہوگا جب دیگر اقدامات کے ذریعے انہیں مکمل کیا جائے۔ مثلاً گاڑیوں کی خریداری، سفر اور پیٹرول استعمال کرنے کی رعایتیں ختم کی جائیں۔ نئی بھرتیوں پر پابندی کی بھی سفارش کی گئی ہے اور ترقیاتی اخراجات پر نظرثانی کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ ان مشوروں میں سے اگرچہ کئی انتہائی مشکل معلوم ہوتے ہیں مگر کئی ایسے ہیں جن کے ضمن میں پہلے ہی بہت کام ہو جانا چاہئے تھا مگر حکومتوں کی مصلحتوں اور سیاسی عزم کی کمی کے باعث معاملات عشروں سے سردخانے میں پڑے ہیں۔ مستحکم معیشت کے ضمن میں ایک زرّیں سبق یاد کرنے اور سامنے رکھنے کی ضرورت آج کے حالات میں سب سے زیادہ ہے۔ ’’امیروں سے لو، غریبوں پر خرچ کرو‘‘۔ کیا ہمارے حکمراں ایسا کرسکتے ہیں؟