قومی اسمبلی سے توقعات

March 01, 2024

نئی منتخب قومی اسمبلی کا اجلاس معینہ وقت میں بلانا آئینی ضرورت تھی جواب پوری کردی گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ اس باب میں تذبذب اور کھینچاتانی کا تاثر پیدا نہ ہونے دیا جاتا۔ جہاں تک بعض اداروں اور عہدوں کے درمیان اختیارات کےحوالے سے کھینچا تانی کا تعلق ہے، اسے کسی کی بدنیتی پر محمول کرنا زیادہ مناسب نہیں محسوس ہوتا۔ بعض قوانین کے الفاظ اورمفاہیم وقت کی ضرورت کے حوالے سے نئی تشریح کے محتاج ہوتے ہیں اور نئی تشریح کی یہ ضرورت کسی بھی وقت سامنے آسکتی ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے بعد قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے لئے ایک مدت کا تعین آئین میں کردیاگیا ہے اور اس کی ماضی میں پاسداری کی بھی جاتی رہی ہے۔ مگر اس بار ایک سیاسی پارٹی کواس کا انتخابی نشان نہ ملنے کے باعث جو الجھنیں پیدا ہوئیں ۔ وہ بار بار کسی نہ کسی انداز میں قانونی موشگافیوں کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ اس باب میں اولین کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکال لیں۔ دوسری صورت عدلیہ سے رجوع کرنے کی ہے جو آئین کی تشریح کرتی اور کئی مقامات پر ابہام دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جہاں تک جمعرات 29فروری2024کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی آئینی ضرورت کا تعلق ہے، وہ پوری ہوگئی۔ اب اسپیکر وڈپٹی اسپیکر سے لیکر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف تک کا تعین ہونا ہے جس کے بعد ایوان زیریں کے معمولات کا سلسلہ چلے گا۔ اس باب میں اسمبلی سے کئی توقعات وابستہ ہیں۔ اس وقت ملک جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، ان کا تقاضا ہےکہ اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر وزرا پارلیمانی سیکرٹری اور ایوان کے دونوں جانب کے ارکان زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ایسے عالم میں کہ ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ، آئی ایم ایف کی شرائط بعض ٹیکسوں میں اضافے اور معاشی ڈھانچے میں اصلاحات کا تقاضا کررہی ہیں اور ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کا چیلنج درپیش ہے پارلیمانی نظام کی ضرورتوں کوسختی سے ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ جلسے، جلوس، دھرنے وغیرہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں مگر ہمارا سسٹم اتنے دھچکوں سے دوچار ہوچکا ہے کہ اس کے استحکام کے حوالےسے محتاط رہنا پڑے گا۔ مسائل سڑکوں پرحل کرنے کی بجائے پارلیمانی ایوانوں میں حل ہونے چاہئیں۔ اس مقصد کے لئے سب کو اپنے اپنے رویوں میں لچک لانی ہوگی۔ اپنے بنیادی اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے بات چیت کی صورتیں نکالنا ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ پارلیمان میں اختلاف رائے ، تنقید، تجاویز، پوائنٹ آف آرڈر سمیت بہت سے طریقوں سے اپنے موقف کی ترجمانی کی جاسکتی ہے۔ ملکی حالات ومفادات کا تقاضا ہے کہ سڑکوں کی سیاست کو چند برسوں کے لئے رضا کارانہ طور پرمعرض التوا میں ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ حکومت اپوزیشن کوساتھ لیکر چلے، حزب اختلاف کو تمام قومی وبین الاقوامی امور پر اعتماد میں لیا جائے اور ضرورت پڑنے پر ایوان کے باہر بھی باہمی ملاقاتوں کی صورت میں مسائل کے حل کی راہ نکالی جائے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ اسمبلی کا وقت بہت قیمتی ہے۔ ارکان اسمبلی کو پوری تیاری کے ساتھ ایوان میں آنا چاہیے ۔ قانون سازی کے لئے زیادہ وقت دیا جانا چاہیے کیونکہ بہت سے معاملات برسوں سے قانون سازی کے منتظر ہیں۔ دوران کارروائی، خصوصاً وقفہ سوالات میں، وزرا کی ایوان میں حاضری یقینی بنائی جانی چاہیے ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک مہذب ملک کے باشندے ہیں۔ ہمارے نمائندوں کی گفتگو اور طرز عمل کی شائستگی کو وقتی غصے سے مغلوب نہ ہونے دی جانی چاہئے۔ وطن عزیز کے باشندے اور ان کے نمائندے محب وطن ہیں، ان کی حب الوطنی کا احترام کیا جانا چاہئے۔ وطن دشمنی کے الزامات سے اجتناب ہی بہتر ہے۔