سابق ٹوری کونسلر کیساتھ مقامی پارٹی کی جانب سے امتیازی سلوک کیا گیا، خفیہ انڈی پینڈنٹ رپورٹ

March 19, 2024

لندن (پی اے) سابق ٹوری کونسلر کے ساتھ مقامی پارٹی کی جانب سے امتیازی سلوک کیا گیا۔ ایک خفیہ انڈی پینڈنٹ ر پورٹ میں پتا چلا ہے کہ ایک سابق کنزرویٹو کونسلر کے ساتھ اس کے مسلم عقیدے یا پاکستانی پس منظر کی بنیاد پر بار بار امتیازی سلوک کیا گیا۔ والسال کونسلر محمد عارف نے دعویٰ کیا کہ انہیں 2015 میں مقامی پارٹی نے دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پارٹی کی طرف سے کھلی معافی نہیں ملی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ وہ تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک جاری عدالتی کیس کا حصہ ہے۔ کنزرویٹو کو سابق ڈپٹی چیئرمین لی اینڈرسن کی معطلی کے بعد پارٹی کی صفوں میں مبینہ اسلامو فوبیا کی وجہ سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے ریفارم یو کے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اسلام پسندوں نے لندن کے میئر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ مسٹر عارف نے 2019 میں والسال کنزرویٹو فیڈریشن اور نیشنل پارٹی کے خلاف قانونی کارروائی کی۔ کنزرویٹو پارٹی نے دعویٰ طے کر لیا اور ایک آزاد بیرسٹر کی طرف سے الزامات کی تحقیقات کا حکم دیا۔ کچھ الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔رپورٹ، جو 2021میں لکھی گئی تھی، کئی برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب مسٹر عارف کے ساتھ والسال کنزرویٹو فیڈریشن کی طرف سے نسل یا مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کیا گیا، بشمول جب انہیں بعد میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے قومی ہیڈ کوارٹر کے پاس والسال کنزرویٹو فیڈریشن کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لئے مناسب ٹولز کی کمی ہے جس کے بارے میں ان کے بقول کنزرویٹو ہیڈ آفس کی بار بار مداخلت کے باوجود اسے برقرار رکھا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت کچھ ایسے میکانزم تھے جو مقامی انجمنوں کے خلاف استعمال کئے جاسکتے تھے۔ اس میں پروفیسر سوارن سنگھ کی طرف سے کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلامو فوبیا کے الزامات کے حوالے سے ایک رپورٹ کے ذریعے اٹھائے گئے خدشات کی بازگشت ہے، جو چند ماہ قبل 2021 میں شائع ہوئی تھی۔اس کے بعد سے، پارٹی نے کہا کہ اس نے کئی سفارشات کو لاگو کیا ہےحالانکہ پروفیسر سنگھ کی طرف سے پچھلے سال ایک اپڈیٹ میں پتہ چلا کہ پیش رفت سست تھی۔ والسال میں فیڈریشن نے تحقیقات میں سے انکار کر دیااور کہا کہ وہ مزید تبصرہ نہیں کر سکتی۔ اس نے تعصب کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ مسٹر عارف نے کہا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائےاور میں نے یقینی طور پر امتیازی سلوک کو محسوس کیا ہےاور اس کے صحت، ذہنی صحت اور مالی صحت پر اثرات بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے کارروائی ناکافی تھیاور جب کہ اس نے انہیں تحریری معافی کی پیشکش کی جیسا کہ رپورٹ کی طرف سے سفارش کی گئی تھی، انہوں نے انکار کر دیا تھا کیونکہ یہ مکمل اور کھلی معافی نہیں تھی۔ میرے خیال میں قومی پارٹی امتیازی سلوک، خاص طور پر مسلم امتیاز اور اسلامو فوبیا پر لب کشائی کرتی ہے۔ میرے خیال میں ان کا ذہن ہے کہ جب مسلم کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک کی بات آتی ہے تو وہ کوئی برائی نہیں دیکھتے، کوئی برائی نہیں سنتے، ان مسلم افراد کے خلاف، جنہوں نے گزشتہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے کنزرویٹو پارٹی کی خدمت کی ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے اندر کسی دوسرے فرد یا گروہ کے خلاف امتیازی سلوک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ میں کنزرویٹو پارٹی سے اسلام فوبیا کو سنجیدگی سے لینے کی زیادہ امید نہیں رکھتا۔ بی بی سی نے بیرسٹر کی رپورٹ کی ایک کاپی حاصل کی، جو مسٹر عارف اور والسال کنزرویٹو فیڈریشن کے درمیان جاری عدالتی مقدمے کا حصہ ہے۔ یہ والسال میں کنزرویٹو فیڈریشن کو چلانے، پارٹی کے لئے امیدواروں کے انتخاب کے عمل، درخواستوں کی منصوبہ بندی کے طریقہ کار اور بدعنوانی اور ذاتی انتقام کے الزامات سے متعلق کئی برسوں کے دعوے اور جوابی دعوے کا تعین کرتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ 2014 میں پارٹی کے مسلم ارکان کے خلاف ایک ڈائن ہنٹ تھا، جس میں کئی کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ نیشنل کنزرویٹو پارٹی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ارکان کو دوبارہ بحال کیا جانا چاہئے۔ 2015 میںپارٹی کی قومی تادیبی کمیٹی کے اس وقت کے چیئرمین سائمن مورٹ کی طرف سے ایک ای میل میں کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پر اسلام پسند سازش کے بارے میں کسی بھی قسم کی انکوائری کی پیروی کرنا کہیں نہ جانے کا راستہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی یورپ میں ہر ایک کو مختلف حد تک مسلمانوں کے بارے میں گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کی شرارتیں کر رہے ہیں اور پارٹی کے تناظر میں اس قسم کے غصے کو دہرانا ہمیں کہیں نہیں ملتا، ہم ایک وسیع اور نمائندہ جماعت بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسٹر مورٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ معاملہ اب بھی سول عدالتوں کے سامنے ہے لیکن اس عالمی منظر کو نوٹ کرنا ضروری ہے، جس کا خلاصہ وہ 2015 میں کر رہے تھے، جہاں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ گروپ نے پارلیمنٹ، ویٹیکن وغیرہ بکنگھم پیلس، گھروں پر سیاہ پرچم لہرانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ بعد ازاں 2015 میں مسٹر عارف، جو والسال میں 12 سال تک کنزرویٹو کونسلر رہے، کو دوبارہ انتخاب میں کھڑے ہونے سے روک دیا گیا۔ انہوں نے شکایت کیاور قومی پارٹی کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ انہیں دوبارہ درخواست دینے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ اس کی منصفانہ سماعت ہو۔ یہ فیصلہ چھ سال بعد بیرسٹر کی رپورٹ کے نتائج کے خلاف تھا۔