ریاست، مذہب اور انتہاپسندی

March 27, 2024

تحریر: محمد صادق کھوکھر… لیسٹر
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم میں انتہا پسندی بامِ عروج پر ہے۔ یہ انتہا پسندی صرف مذہب تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کے ہر معاملہ میں پائی جاتی ہے یہ ہماری معاشرتی، معاشی اور سیاسی میدان میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مزاج کی بے اعتدالی، بے انصافی، معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں، مخصوص خاندانوں کی مسلط شدہ اجارہ داریاں اور کئی دیگر مسائل ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں عدل و انصاف کا فقدان ہے جس معاشرے میں بے انصافی اور ظلم و ستم کا دور دورہ ہو۔ تھانوں اور کچہریوں میں عدل و انصاف کا خون ہوتا ہو تو وہاں عام لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آئے دن سنتے ہیں کہ فلاں جگہ لوگوں نے رنگے ہاتھوں ڈاکو کو پکڑ کر اس کی خوب درگت بنائی۔ کبھی کبھار تو مبینہ ڈاکو کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عام لوگوں کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قطعا" اعتبار نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات پولیس بھی عادی مجرموں سے جان چھڑانے کی خاطر پولیس مقابلہ کا ڈرامہ رچا لیتی ہے۔ اسی طرح اکثر لوگ چھوٹے چھوٹے معاشرتی اور معاشی معاملات میں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ انتہا پسندی کا شکار ہے لیکن اس انتہا پسندی کو صرف مذہب سے جوڑ دینا اور یہ کہنا کہ اس کا علاج سیکولرازم میں مضمر ہے، بالکل غلط طرزِ فکر ہے، چند دن قبل ایک اسی موضوع پر تحریر میں کئی عجیب و غریب دلائل پیش کئے گئے مثلا" تحریر کیا گیاکہ دنیا کی اکثر بڑی جنگیں مذہب کی بنیاد پر ہوئیں جس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یورپ میں جنگِ عظیم اول اور دوم عیسائیوں کے درمیان لڑی گئی تھیں جس میں کروڑوں انسان مارے گئے، یہ حقائق کو توڑموڑ کر پیش کرنے کی انوکھی مثال ہے، بچہ بچہ بھی اس حقیقت سے اگاہ ہے کہ ان جنگوں کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ قوم پرستی کا جذبہ تھا جسے ہٹلر نے بلندیوں تک پہنچایا۔ اسی طرح کئی دیگر مثالیں بھی غلط تناظر میں پیش کی ہیں، مثلا وہ لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام سے دو قومی نظریئے کی نفی ہوتی ہے، حالانکہ اس حقیقت سے بھی سبھی واقف ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اصل وجہ تو وہ نا انصافیاں تھیں جو ہمارے حکمرانوں اور مقتدرہ حلقوں نے ان کے ساتھ برتی تھیں، اگر بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد قومیت ہوتی تو پھر مشرقی اور مغربی بنگال کو ایک ہونا چاہئے تھا لیکن اس کے برعکس بنگال آج بھی دو حصوں میں منقسم ہے۔ مسلم بنگال بنگلہ دیش کہلاتا ہے اور مغربی بنگال بھارت کا حصہ ہے۔ کیونکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ گویا بنگلہ دیش عملا" آج بھی اسی نظریہ پر اپنا اسلامی تشخص قائم رکھے ہوئے ہے جس کی بنیاد پر پاکستان ہندوستان سے الگ ہوا تھا۔ اگر سیکولرازم انتہا پسندی کا علاج ہوتا تو آئے دن مغربی ممالک میں قرآن پاک جلائے جانے اور مساجد کی بے حرمتی کے واقعات جنم نہ لیتے، کیا مغربی ممالک کے یہ رویے انتہا پسندی کے زمرے میں نہیں آتے، ان ممالک میں مذہبی دل آزاری کے لیے انبیاء کرام کے خاکے اعلانیہ بنائے جاتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے جذبات مجروع کرنے کی خاطر دل آزار کتب تحریر کی جاتی ہیں اور ایسا کرنے والوں کو ریاست تحفظ بھی مہیا کرتی ہے، کیا اسے رواداری کہا جا سکتا ہے، جہاں تک انتہا پسندی کا تعلق ہے، اس کے حل کے لیے قانون کی بالادستی اور عوام کی تربیت کی ضرورت ہے، نیز ان عوامل کو ختم کرنا ضروری ہے جس کے باعث عوام میں عدمِ تحفظ پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص گروہ کی بالادستی ختم کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا تسلط جمائے بیٹھا ہے، اس کا علاج سیکولرازم نہیں اسلام ہے، اسلام خود عدل و انصاف، سماجی مساوات، صبر و تحمل، میانہ روی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے، دینِ اسلام انسان کا نجی معاملہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سنوارتا ہے، جسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، اسلام کی عالم گیر اور ہمہ گیر تعلیمات کو اگر ذرائع ابلاغ میں سلیقہ مندی سے پیش کیا جائے تو کئی بڑے مسائل ختم ہو جائیں گے۔