ریاست، سیاست اور عوام

April 16, 2024

اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز مطالبات کیلئے پر امن احتجاج سب کا حق ہے۔ لیکن اس بات کی اجازت اور حق کسی کو حاصل نہیں کہ احتجاج کے نام پر ریاست کو کمزور کرنے اور عوام میں بے یقینی پیدا کرکے عوام ہی کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ کرئے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے شہر پشین میں اپوزیشن کے چھ رکنی اتحاد کا جلسہ ہوا۔ اس اتحاد میں مختلف خیالات رکھنے والی جماعتیں شامل ہیں۔ اپوزیشن رہنمائوں کے مطابق یہ جلسہ احتجاج کا آغاز ہے اور وہ پورے ملک میں جلسے کرینگے۔ جلسے کرنا، اپنا موقف پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن جلسوں اور بیانات میں ریاستی اداروں پر حملے کرکے ریاست کو کمزور کرنے کی کوششیں ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے مترادف ہیں جس کا کسی کو حق نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کو انتخابی نتائج پر اعتراض ہے۔ یہی اعتراض اس جماعت کو2014میں بھی تھا لیکن 2018کے انتخابی نتائج پرکبھی اعتراض نہیں کیا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے اس کوکے پی میں انتخابی نتائج پر تو اعتراض نہیں ہے اور وہاں حکومت بھی بنالی ہے لیکن دیگر صوبوں کے نتائج کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں ہے ؟کیا یہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں نہیں ہیں۔؟کیا صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت نہیں ملی ہے۔ اگر عوام نے ان جماعتوں کو ووٹ دے کر منتخب کیا ہے اور اکثریت کی بنیاد پران کی حکومتیں بنی ہیں تواس میں ریاستی اداروں کا کیا کردار ہے کہ ان اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیا اپوزیشن کے رہنما جو انتخابی نتائج پر بدگمانی کا اظہار کررہے ہیں ان کی اکثریت منتخب ہوکر ان ہی نتائج کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود نہیں ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ جہاں سے وہ جیت کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں وہاں قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں اپوزیشن لیڈر بھی بن گئے ہیں وہ ٹھیک ہیں لیکن جہاں وہ ہارے ہیں وہ سب غلط ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ان کی جیت کو تسلیم کرکے حکومتیں ان کے حوالے کی جائیں اور جیتے ہوئے دوسری جماعتوں کے منتخب ارکان حکومتیں چھوڑ کرگھر چلے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ساری کوششیں کرسی اقتدار کے حصول کے لئے ہیں ملک اور عوام کی بہتری اور ریاست کی مضبوطی کے لئے نہیں ۔

پشین بلوچستان میں واقع ہے اسی بلوچستان میں جہاں اسی جلسے سے کچھ دن پہلے دہشت گردی کا ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں نو بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کیا گیا لیکن اس جلسے میں اس المناک واقعہ کا کوئی ذکر کیا گیا نہ ہی دہشت گردوں کی مذمت کی گئی۔ جلسے اور تقاریر کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا کسی بھی طرح اقتدار کا حصول۔نوشکی میں بے گناہوں کاقتل دہشت اور خوف پھیلا کر صوبے میں امن وامان کو تاراج کرنے کی مذموم کوشش ہے جس پرپورا ملک افسردہ ہے لیکن مذکورہ جلسے میں اس کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ پوری قوم اور بالخصوص بلوچستان اور پنجاب کے عوام نے دیکھ لیا کہ ان جماعتوں کا اصل مقصد کیا ہے۔ ان جماعتوں کا عوام سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا۔ اس جلسے میں ملک میں مہنگائی پر کوئی بات کی گئی نہ ہی مظلوم فلسطینیوں کیلئے ایک جملہ کہاگیا۔ عوامی مسائل اور ملکی معاشی استحکام کے لئے نہ کوئی بات کی گئی نہ ہی ان کے حل کے لئے کوئی تجاویز پیش کی گئیں۔ جس بلوچستان کو حقوق دلوانے کی باتیں کی گئیں اس بلوچستان کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں اس صوبے کو کیا حقوق دلائے اور وہاں کے عوام کی بہتری اور صوبے کی ترقی کے اقدامات تو درکنار وہاں سی پیک پرکام کیوںروک دیا گیا تھا جو اس صوبے کی ترقی ، غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کا اہم ترین منصوبہ ہے۔ بلوچستان کے عوام نے وہ منظر بھی دیکھا ہوا ہے کہ جب کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لوگوں کو قتل کیا گیاتھا اور وہ سخت سردی میں مقتولوں کی لاشیں لے کر کئی دن کھلے میدان میں بیٹھے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم آکر ہماری ڈھارس بندھائے تواس پر ان کو تسلی دینے کے لئے جانے کے بجائے جوکہاگیا وہ سب کو یاد ہے۔

اپوزیشن کے چھ رکنی اتحاد کی احتجاجی تحریک کو تحفظ آئین کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سمجھ سے بالا ہے کہ آئین کو کیا ہوا ہے جس کے لئے یہ تحریک شروع کی گئی ہے ۔ آئین تو موجود ہے اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔ اسی آئین کے تحت کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہے۔ اسی آئین کے تحت وفاق، پنجاب ، سندھ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنی ہیں اسی آئین کے تحت حکومتی اور اپوزیشن کے منتخب ارکان نے حلف اٹھایا ہے۔ ملکی نظام اسی آئین کے مطابق چل رہا ہے۔ ریاستی ادارے اسی آئین کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں توپھر آئین کے تحفظ کیلئے تحریک چلانا چہ معنی دارد۔ بظاہر تو یہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا بہانہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اس احتجاج کا کوئی حاصل وصول نہیں ہے۔نہ تو احتجاج سے کسی کو اقتدار مل سکتا ہے نہ کسی کے غیر آئینی و غیر قانونی طور پر مقدمات ختم ہوسکتے ہیں۔