ہم واپس پلٹناچاہتے ہیں

July 09, 2016

بچپن کی یادیں بڑی دلفریب ہوتی ہیں۔ حافظے میں70ء کی دہائی کی تصویرکچھ یوں ابھرتی ہے کہ ہم دیہاتی ان پڑھ،اجڈ،حالات کے تقاضوں سے بے خبر،دنیاسے ناآشنااورٹیکنالوجی سے بے بہرہ اپنے کنوئیں ہی کو کل کائنات سمجھنے والے لوگ تھے۔لاعلمی کو بھی ایک نعمت کہاگیا ہے اور اس لحاظ سے ہماری زندگی ٹینشن فری تھی۔
ہوسکتا ہے کہ شہروں میںاس وقت بھی قیامت کی نظر رکھنے والے اہل علم بلیک اینڈ وہائٹ فلموں اور ڈراموں میں فحاشی کو ہیروئن کی جوتی کے تلوے سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہوں۔بہت ممکن ہے کہ اشتہاروںکے اسکرپٹ لکھنے والے اور انہیں فلمانے والے ناہنجار جان بوجھ کرعورت کواس انداز میں پیش کرتے ہوں جوعریانیت کے زمرے میںآتاہے۔کیا عجب کہ اس دور میںبھی پسند کی شادی کرنے والی لڑکیوں کوزندہ جلانے کے غیرت مندفعل کے دور اندیش ،صالح حمایتی موجود ہوں۔کیا خبر کہ ٹی وی پرٹینس کا کوئی یورپی میچ دیکھتے ہوئے باریک بین دانشورکھیل کی بجائے کھلاڑی خواتین پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہوں۔کچھ بعید نہیں کہ ماضی کے اس دور میںبھی دیسی لبرل اور سیکولر طبقہ مغربی تہذیب کی نقالی اور حقوق نسواں کے نام پرمعاشرتی بگاڑ میں پیش پیش ہو...مگرخدا کوجان دینی ہے بھائیو!ہمیں ایسی دلگدا زباتوں کاکچھ علم نہیں تھا کہ ہمارے ہا ں تو تب بجلی بھی نہیں آئی تھی۔ہمیں تو کھیتوںمیں خون پسینہ ایک کر کے دو وقت کی روکھی سوکھی بھی میسر آجاتی تو خالق کا شکر اداکرتے نہ تھکتے تھے ۔بدون تعلیم، فہم ودانش اور میڈیا،ہم جاہلوں کی سوچ اس سے آگے جا بھی کیسے سکتی تھی بھلا؟
ہم سادہ لوحوں کی زندگی توفقط گائوں کے سادہ دل مولوی کے افکار کے گرد ہی گھومتی تھی۔وہی ہمارادینی رہنماتھا،وہی دنیاوی مسائل کی گتھیاں سلجھانے والا،وہی طبیب اور وہی نصیب۔ہمارے گھرانے گائوں سے باہر واقع تھے۔اندر آبادی دیہہ سے ایک چار جماعت پاس مولوی صاحب صبح شام ہماری مسجد میں تشریف لاتے۔آپ نمازپڑھاتے،بچوں کو قران پاک کی تعلیم دیتے،کسی کے گھر خط آتا تو پڑھ کر سناتے،اس کا جواب بھی لکھ دیتے،جسے سر درد،دانت کا درد،بخاریا کوئی بھی بیماری لاحق ہوتی،اسے پڑھ کر دم کرتے،حتیٰ کہ اگر کسی کو جن بھوت وغیرہ تنگ کرتے تو ان کے پاس اس مرض کا بھی شافعی علاج موجود تھا۔ایک دفعہ ایک خاتون کوکوئی جابر قسم کا جن چمٹ گیا۔وہ لڑکی کے ہاتھوں سے برتن توڑتا جاتا تھااوراسی کی زبانی بار بار ایک مطالبہ دہراتا کہ شام تک اس لڑکی کو نیا سوٹ سلواکر دو،ورنہ اس کی جان نہیں چھوڑوں گا۔وہ تو خدا بھلا کرے مولوی صاحب کا کہ بروقت پہنچ گئے اور اپنے ڈنڈے پر دم درود کر کے جن کو ایسا بھگایا کہ مڑ کر اس نے ادھر کا رستہ نہ دیکھا۔ہمارے روزے اورعیدیں بھی مولوی صاحب کی مرہون منت تھیں کہ بیرونی دنیا سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا۔آپ انتیسویںروزے کو مغرب کی نماز پڑھا کربہ نفس نفیس ننگی آنکھ سے چاند دیکھتے اور اگلے روزعیدہونے یا نہ ہونے کااعلان کرتے۔وہ اکثر ہم بچوں کی امیدوں پر پانی ہی پھیرا کرتے تھے۔
ایک دفعہ مولانارویت رویت ہلال کمیٹی کی طرح رات گئے تک عید کا چاند ڈھونڈتے رہے اور ناکامی پر سب کو سختی سے روزہ رکھنے کا حکم دے دیا۔ہماری عیدکی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔نمازفجرپڑھاکرجب آپ اپنے دولت خانے پرتشریف لے گئے تو بیگم صاحبہ کوحلوے کڑاہ میں چمچہ ہلاتے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔دراصل گائوں کے کسی اور مولوی کورات گئے چاند نظرآ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھاکہ دور سرسبز لہلہاتی فصلوں کے درمیان پکڈنڈیوں پر مولانا بوجھل قدموں سے چلے آرہے ہیں۔انہوں نے یہاں آکر عید کااعلان کیاتو جیسے ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔کھیتوں میں کام کرتے روزےداروں کوبلا کرنمازعید کااہتمام کیا گیا، سب نے بھاگم بھاگ نہا دھوکر صاف کپڑے پہنے اور ہنگامی طور پر حلوے اور گوشت تیار ہوئے۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ درختوں کے ساتھ پینگیں ایک دن قبل ہی ڈال دی گئیں تھیں،ورنہ کیا خاک عید ہوتی؟ایک دفعہ تو یوں بھی ہوا کہ تیس رمضان المبارک کی دوپہربیس کلومیٹر دورچکوال شہر سے اللہ کاکوئی نیک بندہ اس گائوں میں اپنے رشتہ داروں کو عید ملنے آیا اور حیرت سے کہا کہ بے وقوفو!شہر میں تو آج عید ہے۔جب گورے کے چاند پر پہنچنے کا چرچا ہوا توتو ہمارے مولوی صاحب تشکیت وتذبذب کا شکار ہوگئے۔علمی نقطہ اٹھاتے تھے کہ توے کے برابر تو چاند شریف کا حجم ہے،پھر یہ لوگ اپنی موٹر سمیت وہاں اترے کیسے؟بعدازاں جب کسی دور دراز علاقے سے ایک بہت بڑے حضرت مولانانے یہاں آکرخطاب کیا تو شکوک وشبہات کے بادل سارے چھٹ گئے۔انہوں نے دوٹوک انداز میں فرمایاکہ چاند مبارک پرکوئی انسان قدم نہیں رکھ سکتا اورجس نے بھی گورے کے اس لغو دعوے کو تسلیم کیا،اس کا نکاح ٹوٹ چکاہے۔تاہم آپ کی دعائوں اورہمارے مقامی مولوی صاحب کی مہربان رہنمائی کے طفیل اس وقت تک ہر کسی کا نکاح برقرار تھا۔ہمارے مولانا کوجب اسکول جاتے کسی بچے کا امتحان مقصودہوتاتواسے کچی مٹی پر اپنی شہادت کی انگلی سے لفظ’’قسطنطنیہ‘‘لکھنے کا حکم کا دیتے۔ـــجولکھ لیتا وہ پاس اور جو ناکام رہتا اس کی ساری ’’ڈگریاں‘‘ ضائع فرمادیتے۔
بلاشبہ ہماری اس زندگی اور آج کے دور میں وہی فرق ہے جوقلم دوات سے تختی لکھنے اورکی بورڈ سے کمپیوٹر چلانے میں ہے۔تاہم ہمارے نزدیک یہ ایک دقت طلب تحقیق ہے کہ جہالت کی پہچان اس دور کی تاریکی تھی یاموجودہ عہدکی کافر گری،انتہا پسندی اور قتل وغارت اس کی عکاس ہے؟تب یہاں عقل ودانش کا سیلاب نہیں آیا تھامگراہل تشیع میلاد کے جلوسوں میں شرکت کرتے اور اہل سنت محرم کی مجالس میں جلوہ افروز ہوتے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی کا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا تھا۔ہم مضافاتی لوگ علم کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی سہولتوںسے یکسر محروم تھے لیکن زندگی باہمی احترام اور اخلاقی قدروں سے منور تھی۔ہمارے مولاناکوئی خطیب شعلہ بیان یامنبع فصاحت وبلاغت وغیرہ ہر گز نہیںتھے مگر اند اور باہر سے ایک تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ہم ان پڑھوں کوباہمی احترام اورمحبت کا درس دیا۔آپ ان کی کم علمی سمجھیں یاسادگی مگر انہوں نے کبھی ہمیں فرقہ واریت یا مذہب کے نام پر دنگا فساد کی طرف راغب نہیں کیا۔ہمارے مولانا کم فہم ضرور تھے لیکن غیر متمدن،بد تہذیب اور اخلاقیات سے عاری نہیں تھے۔وہ تصویر کو حرام سمجھتے تھے اورآخری دم تک اس پر قائم رہے۔اگر ان کے پاس ذاتی فوٹو گرافر ہوتا بھی توکبھی اسے ساتھ نہ رکھتے۔ہمیں یقین ہے کہ اگرانہیں سیلفیوں کی سہولت حاصل ہوتی تب بھی اسے منہ نہ لگاتے۔ہماری زندگی کچھ یوں بھی آسان تھی کی کہ کرپشن اور فحاشی کو جڑ سے اکھاڑنے کا رواج نہیں تھا۔مخالف کو کافر،غدار اور گردن زنی قرار دینے کاخیا ل بھی کسی کے زرخیزذہن میں نہیں تھا۔وہ توخداحساب کرے مرد مومن ضیا ء الحق کے ساتھ کہ اس نے ہمیں بھی دنیا کی کچھ خبر دی۔اس نے ہماراقبلہ درست کرتے ہوئے کہاکہ غافلو!تمہار اکوئی دین دھرم بھی ہے،مخالف فرقے بھی ہیں،اسلحہ بھی کوئی بلاہے، پختہ ایمان بھی کوئی چیزہے،فحاشی بھی کوئی ناسور ہے اور خون گرم رکھنے کے لئے باہمی جہاد بھی لازم ہے،کیا تم جانوروں کی طرح دنیا میں آئے اور کھا پی کر مر گئے؟تب تک ٹی وی نے بھی ہمارے گھروں میں تانک جھانک شروع کر دی تھی اور کبھی کبھار اخبارات بھی نظر آجاتے تھے۔گویاروشنی ہم تک پہنچناشروع ہوگئی تھی اور ہم نفرت کے سوداگروں کے ہاتھوں یرغمال بنتے چلے گئے۔
پس بھائیواور بہنو! ہم بارانی اور پہاڑی ان پڑھ، اجڈ، حالات کے تقاضوں سے بے خبر،دنیا سے ناآشنا ، جدید سہولتوں سے محروم،سائنس وٹیکنالوجی سے بے بہرہ اپنے کوئیں ہی کو کل کائنات سمجھنے والے لوگ تھے۔آج ہم جدید دور کے علم ودانش،فہم وفراست اور ترقی سے خوفزدہ ہیں۔ہم اپنے اسی جہالت کے دور میں واپس جانا چاہتے ہیں۔ہم ویسی ہی دیسی عیدیں منانا چاہتے ہیں جو خاک وخون اور با رود کے دھوئیں سے پاک ہوں۔جہاں دور دور تک کوئی لائوڈ اسپیکر،کوئی خطیب بے بدل،کوئی خزینہ علم وحکمت،کوئی گلدستہ معرفت،کوئی مقررشعلہ بیان اور کوئی زود فہم اوردور اندیش دانشور نہ ہو۔جہاںشفاف صبحیں اپنے حسن وجمال کا نور بکھیریں اور شامیں تندوروں سے نکلنے والے دھوئیںکی خوشبو سے معطر ہوں۔