معاشی بہتری اور ملک دشمنوں کی کوششیں

April 23, 2024

یہ بات قوم کیلئے باعث اطمینان ہے کہ ملک میں معاشی بہتری کی جانب سفر شروع ہونیوالا ہے۔ پاکستان کے دیوالیہ ہونے اور سری لنکا بننے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے قوم میں مایوسی پھیلانے کی کوششیں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ بعض لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اور قوم خوشحال ہو اس لئے نت نئے طریقوں کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور ریاست کو کمزور ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس جھوٹے الزامات، گمراہ کن پروپیگنڈے اور توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ایسے لوگوں نے نہ کسی سیاسی مخالف کو چھوڑا جس کی پگڑی نہ اچھالی ہو اور اس کو برے القابات سے نہ پکارا ہو اور بے بنیاد الزامات نہ لگائے ہوں۔ ان لوگوں نے اعلیٰ عدلیہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ملک کے محافظ عسکری اداروں اور اعلیٰ قیادت کے وقار اور عزت کا بھی لحاظ نہیں رکھا حتیٰ کہ ان شہدا کے مرتبے اور احترام کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جنہوںنے اس ملک وقوم کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کی عظیم قربانیاں دی ہیں۔آرمی چیف سید عاصم منیر کیخلاف بیہودہ اور غلیظ گفتگو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مہم کے طور پر شروع کررکھی ہے جس کا مقصد پاک فوج کو کمزور کرنا اور عوام میں بدگمانی پیدا کرنا ہے۔ ان لوگوں کواس مقصد میں کبھی کامیابی نصیب نہیں ہوسکے گی کیونکہ ان کو شاید معلوم نہیں کہ پاکستانی قوم اپنی افواج اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے نہ صرف محبت کرتی ہے بلکہ ان پر فخر بھی کرتی ہے۔ آرمی چیف اورتمام عسکری قیادت ملک کی حفاظت اور معیشت کی بہتری کیلئے پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ اپنی کوششوں میں مگن ہے۔ قوم کی طرف سے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہونا، ان پر بھروسہ رکھنا اور فخر کرناکافی ہےلہٰذا ایسے لوگوں کی مذموم پروپیگنڈا مہم ناکام اور ایسی غلیظ و ناپاک کوششیں بے سود ہیں۔ قوم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پاک فوج کو اعلیٰ مقام حاصل ہے اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرکو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جھوٹ پر مبنی ناپاک پروپیگنڈاکرنیوالوں کو سمجھنا چاہئے کہ ایسی مذموم حرکتوں سے وہ خود قوم اور دنیا کی نظروں میں اپنی ہی توہین کا سامان کرتے ہیں۔ قوم کا مطالبہ ہے کہ ایسے عناصر کیخلاف مثالی کارروائی ہونی چاہئے۔

معیشت کے ساتھ ساتھ ملک میں امن وامان کی مجموعی صورتحال میں بھی بہتری کے امکانات نظر آتے ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی روکنے کیلئے موثر اقدامات کی وجہ سے اب صورتحال وہ بالکل نہیںجو کچھ عرصہ پہلے تھی۔بشام کے افسوسناک واقعہ کے بارے میں ملوث افراد اور سہولت کاروں تک پہنچنے کی کوششیں بار آور ثابت ہورہی ہیں۔ اس میں ملوث کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور مزید کارروائی جاری ہے۔ نوشکی بلوچستان کے اندوہناک واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کی سرکوبی کیلئے بھی کوششیں جاری ہیں۔ ریاست اپنے بے گناہ شہریوں کودہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریگی۔ اس المناک واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کیساتھ ساتھ انکے سہولت کاروں کو بھی نشان عبرت بنایا جائیگا۔ ڈی آئی خان میں کسٹم اہلکاروں اور وزیرستان میں سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت سے بھی ریاست غافل نہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد بھی جلد اپنے انجام کو پہنچا دئیے جائینگے۔ دور دراز مقامات پر نہتے شہریوں، سیکورٹی اہلکاروں، پولیس اور کسٹم اہلکاروں کی محدود تعداد پر حملہ کرکے انکو شہید کرنا اور پھر بھاگ جانے کی کوشش کرنا کہاں کی بہادری ہے بلکہ یہ تو بزدلی ہے۔ اس میں افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ افغانستان اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے جن کے ٹھکانوں کا افغان عبوری حکومت کو علم بھی ہے۔ پاکستان نے متعدد بار نہ صرف افغان حکومت کو یاد دلایا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی طرف سےدہشت گردوں اور ان کے وہاں محفوظ ٹھکانوں سے آگاہی پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ افغان حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی دہشت گرد گروپس مستقبل میں خود افغانستان کیلئے مشکلات اور شدید خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی بحالی کا سفر شروع ہونیوالا ہے۔ یہ بہت امید افزا اور خوش آئند ہے کہ سعودی عرب بہت جلد پاکستان میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنیوالا ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب کی طرف سے اس بھاری سرمایہ کاری کا پاکستانی صنعتوں کو بہت فائدہ ہوگا اور ملک میں بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملنے سے غربت میں کمی واقع ہونا شروع ہوگی۔ کاروبار کا رُکا ہوا پہیہ چلنا شروع ہوگا۔ اسکے علاوہ دیگر ممالک کی طرف سے بھی پاکستان میںسرمایہ کاری کرنے کے امکانات ہی نہیں بلکہ دروازے کھلنا شروع ہوجائیں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے28اپریل کو سعودی عرب جانے کا امکان ہے جہاں وہ سعودی حکمرانوں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اگلے ماہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کےبھی دورہ پاکستان کا قوی امکان ہے۔ اس تحریر کی اشاعت سے ایک دن قبل ایران کے صدر پاکستان کے دورے پرپہنچ چکے ہونگے۔ اس دورے میں ان کیساتھ اعلیٰ سطحی وفد بھی شامل ہے۔ ایرانی صدر کے دورے کے دوران کئی معاہدوں کو حتمی شکل دینے اور کئی ایم اویوز پر دستخطوں کا بھی امکان ہے۔ مجموعی طور پر ایرانی صدر کا یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جولائی تک آئی ایم ایف کیساتھ چھ ارب ڈالرز سے زائد رقم کے معاہدے کابھی امکان ہے جس کے بارے میں آئی ایم ایف نے پہلے ہی مثبت عندیہ دیا ہے اور یہی خوش کن صورتحال بعض لوگوں سے برداشت نہیں ہو پارہی ، جوقابل مذمت ہے۔