بلوچ لاپتہ افراد کیس: کیا ایجنسیز میں کوئی جوابدہ ہے؟ عدالت کا استفسار

April 24, 2024

---فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس والوں کو تو معطل کر دیتے ہیں کیونکہ وہ جو کرتے ہیں سب کے سامنے کرتے ہیں، کیا ایجنسیز میں کوئی جوابدہ ہے؟ خود احتسابی کہاں پر ہے جو نظر آئے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعتجسٹس محسن اختر کیانی نے کی، بازیاب ہونے والے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ پٹیشن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، یہ واضح ہے اسٹیٹ یا عدالتیں کسی دہشتگرد کی پروٹیکشن نہیں کریں گی، سوال تب اٹھتا ہے جب قانون سے ماورا کوئی اقدام ہوتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس جیسی بھی کارروائی کرتی ہے اسے تو ہم دیکھ لیتے ہیں ٹھیک ہوئی یا نہیں۔

دورانِ سماعت وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ جس دن نگراں وزیرِاعظم یہاں پیش ہوئے اُسی دن ایک بلوچ اسٹوڈنٹ اٹھایا گیا، پھر اگلے ہی دن اُس لاپتہ طالبعلم کو راولپنڈی سے چھوڑ دیا گیا۔

اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ میری رائے جبری گمشدگی کمیشن کےخلاف اسی لیے ہے، جبری گمشدگی کمیشن انہی کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے جن پر الزام ہوتا ہے، جوادارے قانون کے ماتحت ہیں وہ تو ریگولیٹ ہوجاتے ہیں، جو قانون سے ماورا کارروائی کرتے ہیں ان کی ریگولیشن کیا ہے؟پولیس تمام اداروں سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ کارروائی سب کے سامنے کرتے ہیں۔

جسٹس محسن کیانی نے استفسار کیا کہ حکومت وزارت دفاع سے پوچھ کر بتائے ایجنسیز کے اندر خود احتسابی کا کیا عمل ہے؟ ٹھیک ہے ورکنگ میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں وہ جوابدہ نہیں، اگر کوئی دہشتگرد ہے تو پرچہ دیں، کارروائی کریں، لیکن ماورائے عدالت کارروائی نہ کریں، ایجنسیز کا کردار کسی قانون کے تحت ہوگا؟ جس طرح ایف آئی اے اور دیگر اداروں کا ہے، ہر ادارے کو اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ عدالت کو بھی اپنے اختیار کے اندر رہ کر کام کرنا ہے، ایک گھر کا مرد لاپتہ ہے، اس کی ماں بہن بیٹی پر کیا گزر رہی ہے، کمیٹی بنائی تھی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، ڈی جی ایم آئی تھے، اس بارے میں بتائیں۔

اس پراٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس سے متعلق ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ آپ آرڈر میں جو ترمیم چاہتے ہیں متفرق درخواست دائر کریں، عدالت کو مطمئن کریں، ہمیں لاپتہ افراد کے اس معاملے کو حل کرنا ہے، کمیٹی بنانے سے متعلق کوئی اعتراض ہے تو وجوہات بتا کر مطمئن کریں، پٹیشنرز کی وکیل کہتی ہیں جس دن وزیرِاعظم یہاں بیان دے کر گئے اسی دن ایک بندا اٹھالیا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔

بعد ازاں بلوچ طلباء کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت 21 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔