شہباز سے نواز تک

May 21, 2024

ملکی سیاست میں طویل خاموشی کے بعد میاں نواز شریف ایک مرتبہ پھر ملکی سیاسی منظر نامے پر پوری طاقت سے نمودار ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔میاں شہباز شریف نے 2017ء میں سنبھالی گئی مسلم لیگ کی صدارت میاں نواز شریف کو واپس کرنے کا عندیہ دیا ہے اور 28 مئی کو متوقع طور پر میاں نواز شریف مسلم لیگ کی صدارت پر متمکن ہو جائیں گے۔گزشتہ روز مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں میاں نواز شریف کا خطاب کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل تھا۔ اس میں انہوں نے نہ صرف اپنے سیاسی عزائم کا کھل کر اظہار کیا بلکہ حسب سابق ماضی کی تلخیوں کا ذکر کرنا بھی نہ بھولے۔ انہوں نے عدلیہ کے بعد جج صاحبان کا نام لیکر ان پر تنقید کی۔ بعض اداروں کو دھیمے لہجے میں تنقید کا نشانہ بنایا عوام کے ساتھ شکوہ بھی کر ڈالا کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے بیانیے پر ان کے ساتھ نہیں نکلے، ان کی تقریر کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہونے کے بجائے ایک بھرپور سیاسی اننگز کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔میاں نواز شریف کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور سرد وگرم چشیدہ سیاستدان ہیں اور گزشتہ چار دہائیوں سے وہ ملکی سیاست کے افق پر موجود رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامے پر ان کی موجودگی سیاسی صورتحال کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کریگی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ اپنی اس سیاسی اننگز کو کس انداز میں کھیلتے ہیں، اسکا انحصار ان کے آنے والے سیاسی رویے پر ہوگا تاہم انکی تقریر سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ وہ آج بھی ماضی میں زندہ رہ کر مستقبل کو بھی اپنے ماضی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا مقابلہ ایک ایسے سیاستدان سے ہے جو ملک میں بےپناہ مقبولیت کا حامل ہے، اسکی ایک تصویر کروڑوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ اپنے بیانیے پر سختی سے قائم ہے اور کسی بھی لحاظ سے مفاہمت کی سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا،جبکہ اس کے مقابلے میں میاں نواز شریف بھی بظاہر محاذ آرائی کی سیاست کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں یہ چیز نہ صرف مسلم لیگ کے لیے بلکہ پاکستانی سیاست کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔میاں نواز شریف 1980ء کی دہائی سے اقتدار کی راہداریوں میں مختلف حوالوں سے موجود رہے اور 2024ء میں یہ پہلا موقع تھا کہ جب وہ قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر بھی موجود تھے ہر قسم کی نااہلیوں سے بھی آزاد تھے لیکن پھر بھی وہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب حاصل نہیں کر سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ انکا چھوٹا بھائی دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوا،صاحبزادی ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیراعلیٰ بنیں،سمدھی نائب وزیراعظم، اور وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہیں اور وہ خود حکمران جماعت کے سربراہ۔ نواز اور شہباز یوں تو ایک ہی تصویر کے دو مختلف روپ ہیں۔ البتہ شہباز شریف مقتدرہ سے بنا کر رکھنے کے قائل ہیں جبکہ میاں نواز شریف کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ محاذ آرائی مول لےلیتے ہیں، شہباز شریف کسی اچھے منیجر کی طرح ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ نواز شریف سرمایہ دارانہ نظام سے متاثر ہیں اور انفراسٹرکچر کی بہتری پر زیادہ توجہ دیتے ہیں،ماضی میں نواز اور شہباز ایک ہی پچ کے دونوں جانب کھیلتے رہے ہیںاور اپنے مخالف کھلاڑیوں کو گراؤنڈ سے باہر بھیجنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اس مرتبہ حالات قدرے مختلف ہیں۔کپتان جیل میں بیٹھ کر بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر بھی قائم ہے، 9مئی کے حوالے سے بھی وہ کسی طرح اپنے رویے میں نرمی لانے کا قائل نظر نہیں آرہا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے وہ عوام میں دن بدن مقبول ہوتا جا رہا ہے جبکہ میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے پیچھے ہٹ کر اپنی سیاسی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچا چکے ہیں۔ کہاں ووٹ کو عزت دو کا طاقتور بیانیہ اور کہاں پاکستان کو نواز دو کا التجا یہ نعرہ، اس یوٹرن نے مسلم لیگ کی سیاست کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی شخصیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میاں نواز شریف جب مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے نئی اننگز کھیلنے جا رہے ہیں تو ان کے پیش نظر یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ اب حالات بدل چکے ہیں، زمینی حقیقتیں تبدیل ہو چکی ہیں عوام کا رخ نواز سے خان کی طرف ہوچکا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی مقبولیت کی معراج پر نہیں بلکہ مقبولیت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔پاکستان کی نوجوان نسل ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑی نظر نہیں آرہی۔ ملکی معاشی حالات جس نہج پر ہیں وہ کسی بھی نوعیت کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ عمران خان اور نواز شریف کا بے لچک رویہ ملک کو ایک بند گلی کی طرف دھکیل رہا ہے۔اس صورتحال میں میاں نواز شریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک طرف تووہ حکمران جماعت کے سربراہ ہیں اور دوسری طرف پنجاب اور مرکز میں قائم حکومتوں کے حقیقی راہبر بھی۔اب انہیں سیاستدان کے بجائے ایک راہنما کے طور پر سوچنا ہوگا۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر بہتر مستقبل کیلئے اپنے بدترین مخالفین کی طرف بھی توجہ کرنا ہوگی۔سیاست بچانے کے بجائے پاکستان بچانے کی بات کرنا ہوگی۔ یہی بات انکے مرتبے میں بلندی کا باعث بن سکتی ہے لیکن اگر وہ روایتی سیاست پرقائم رہےیا ملک کو 90 کی دہائی میں لیکر چلے گئے تو یہ بڑی بدقسمتی ہوگی اور نوجوان نسل اس سنگین غفلت کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔