پولیو کا مسئلہ

May 01, 2024

پاکستان میں 1994ءمیں پولیو کے خاتمے کیلئے منظم کوششیں شروع ہوئیں۔ ہمارے بہادرکارکنوں نے پولیو سے ہونے والے فالج اور اموات جن کی تعداد 8 لاکھ 75ہزار تھی میں کمی لاتے ہوئے انہیں 1980اور 1990کی دہائیوں کے دوران 20ہزار تک محدود کردیا۔ ریکارڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2017میں ملک بھر سے پولیو تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ 2018کی تیسری سہ ماہی میں اس خوفناک مرض کا از سر نو پھیلائو کا آغاز ہوا۔ 2019کی دوسری اور تیسری سہ ماہی میں پولیو کا شکار ہونے والوں کی مجموعی تعداد 68تک جاپہنچی، صرف خیبر پختونخوا میں 57بڑے کیس سامنے آئے۔ غذائی قلت، بچوں کی خراب صحت، آلودہ پانی،فضائی آلودگی اور صفائی کے ناقص انتظامات کے علاوہ ویکسین کے خلاف مزاحمت اور پولیو ٹیموں پر فائرنگ کے افسوسناک واقعات بھی اس پر مکمل طور پر قابو پانے میں سب سے بڑی رکاوٹیں رہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 سال کے دوران خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملوں کے نتیجے میں 29 خواتین پولیو ورکرز سمیت 109اہلکار جاں بحق اور 162زخمی ہوئے۔ اس دوران 13 پولیس اہلکاروں کو اغوا کیا گیا۔ 2020ءمیں نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان بنایا گیا اور موثر حکمت عملی کے نتیجے میں 2021ءکے دوران پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جو صوبہ بلوچستان میں سامنے آیا تاہم خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیمیں شدت پسندوں کے نشانے پر رہیں۔ 2022ءملک بھر میں مجموعی طور پر پولیو کے 20 اور 2023ءمیں صرف 5 کیس رپورٹ ہوئے۔ ملک بھر میں 5 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا ہے جس کے دوران دو کروڑ 40لاکھ سے زیادہ بچوں کو قطرے پلائے جائینگے۔ مہم میں 4لاکھ سے زیادہ پولیو ورکرز حصہ لے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں کی حفاظت کیلئے 33ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ آج دنیا میں پولیو کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے لیکن پاکستان میں ہنوزاس کا پایا جانا لمحہ فکریہ ہے۔