معیشت اور آئی ایم ایف

May 26, 2024

ملک کی معاشی صورت حال میں کئی حوالوں سے بہتری کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہماری معیشت قرضوں کے جال میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے ۔ اس کیفیت سے نجات کیلئے اگرچہ دوست ملکوں کے تعاون سے نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں لیکن فی الوقت معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کیلئے مزید قرض کے حصول کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اس صورت حال کے باعث عالمی مالیاتی فنڈ سے مالی تعاون حاصل کرنا اور اس کی مشاورت سے دور رس معاشی اصلاحات عمل میں لانا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ ماہرین کے مطابق ان اصلاحات سے قومی معیشت بتدریج اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوسکتی ہے ۔ گزشتہ سال طے پانے والے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی بندوبست کے اختتام پر آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان کی درخواست پر طویل مدت کے بیل آؤٹ پیکیج کے امکانات کا جائزہ لینے کی خاطر دس روزہ دورے پر اسلام آباد آیا تھا اور گزشتہ روز دورے کے اختتام پر فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان نے قرض کے نئے پروگرام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے۔آئی ایم ایف کے مطالبات کی طویل فہرست میں ٹیکس نیٹ بڑھاکراور اخراجات کم کرکے بہتر عوامی فنانسنگ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، توانائی کے شعبے میں مالیات کو درست کرنا، مہنگائی کو کم کرنا، مناسب مالیاتی اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کو اپنانا، سرکاری تحویل میں چلنے والے کاروباری اداروں کی تنظیم نو اور نجکاری کے ذریعے عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا ، سرمایہ کاری اور مضبوط گورننس کے لیے برابری کے مواقع مہیا کرکے نجی شعبے کی شراکت کو فروغ دینا اس فہرست میں شامل ہے۔ قومی بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد آئی ایم ایف اس سال جولائی میں اسٹاف لیول معاہدے کو حتمی شکل دے گا۔آئی ایم ایف مشن کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ اصلاحاتی پروگرام کا مقصد پاکستان کو معاشی استحکام سے مضبوط، جامع اور لچکدار ترقی کی طرف لے جانا ہے۔ اس کیلئے افرادی قوت، سماجی تحفظ اور آب و ہوا کی لچک کیلئے اخراجات کو بڑھاتے ہوئے، منصفانہ ٹیکس کے ذریعے محصولات کو بہتر بنا کر کمزوریوں کو کم کرنے کے لیے عوامی مالیات کو مستحکم کرنا، توانائی کے شعبے کی عملداری کو محفوظ بنانا، توانائی کی بلند قیمت کو مناسب مانیٹری اور شرح مبادلہ کی پالیسیوں کے ذریعے کم کرنا ، ریاستی کاروباری اداروں کی تنظیم نو اور نجکاری کے ذریعے عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانا اور سرمایہ کاری اور مضبوط گورننس کے لیے برابری کے میدان کو محفوظ بنا کر نجی شعبے کی ترقی کو فروغ دینا ہوگا۔ آئی ایم ایف مشن اور پاکستانی حکام آنے والے دنوں میں بات چیت جاری رکھیں گے جس کا مقصد پیکیج کو حتمی شکل دینا ہے۔ دوست ملکوں کی جانب سے مالی وسائل کی فراہمی اور اصلاحاتی کوششوں میں تعاون کی ضرورت بھی بیان میں واضح کی گئی ہے۔ بلاشبہ معاشی بحالی ہماری اولین ضرورت ہے لیکن اصلاحاتی عمل میں اس بات کو ملحوظ رکھنا بھی لازمی ہے کہ عام آدمی کی زندگی بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافوں جیسے اقدامات کے باعث مزید دشوار ہوتی نہ چلی جائے ۔ اس سمت میں پیش رفت کیلئے ضروری ہے کہ آئی پی پیز سے نجات حاصل کی جائے جنہیں اربوں روپے اس بجلی کی مد میں بھی ادا کیے جاتے ہیں جو بنائی ہی نہیں جاتی، سورج اور ہوا سے بجلی کی تیاری کو فروغ دے کر ان کمپنیوں سے معاہدے بتدریج ختم کیے جائیں یا عوامی مفاد کے مطابق شرائط طے کی جائیں۔ پی ڈی ایم کے دور میں وفاقی حکومت نے سرکاری اخرجات میں کمی کی خاطر جو کفایت شعاری منصوبہ تشکیل دیا تھا اُس پر عمل درآمد کیا جائے نیز کرپشن کی روک تھام کیلئے آٹو میشن اور ڈیجیٹلائزیشن کو پبلک ڈیلنگ کے تمام امور میں جلد ازجلد عام کیا جائے۔