چستی اور سستی

May 29, 2024

کوئی بھی فلمساز یہ نہیں چاہتا کہ اس کی فلم ناکام ہو مگر قسمت کے ساتھ کون لڑ سکتا ہے؟ اگر فلم کے مقدر میں ناکامی لکھی جا چکی ہو تو فلم فلاپ ہی رہتی ہے، بے شک آپ سارے ٹی وی چینلز اور اخبارات اس کی تشہیر پر لگا دیں، تمام تھانوں کے ذریعے فلم کی کامیابی کے لئے کوشش بھی کریں تو فلم فلاپ ہی رہتی ہے۔ میں نے ایک سینئر فلمساز سے پوچھا کہ فلم کی کامیابی کیلئے کیا کچھ ضروری ہوتا ہے؟ اس نے کہا ’’فلم حقیقت کے قریب ہونی چاہیے جونہی فلم میں جھوٹ نظر آیا، فلم فلاپ ہو جائے گی، ڈائیلاگ، اداکاری اور موسیقی اس کا حصہ ضرور ہیں مگر آپ فلم کو حقیقت سے دور نہیں لے جا سکتے‘‘۔ یہ سن کر مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا، ایوب خان کا آمرانہ دور تھا، ایوان صدر اور سرکاری دفاتر کے لئے پاکستان ٹائمز کی ڈھائی تین سو کاپیاں الگ شائع کی جاتی تھیں جبکہ باقی عوام کیلئے الگ اخبار۔ ایوان صدر اور سرکاری دفاتر میں سب ہرا بھرا نظر آتا تھا جبکہ حالات اس سے کہیں مختلف تھے، ایوب خان کے میڈیا منیجرز ایک دن کہنے لگے ’’جنرل صاحب! آپ سے لوگ بہت پیار کرتے ہیں، آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ لوگ کس قدر آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ ملک کے سینماؤں میں فلم سے پہلے جب قومی ترانہ سنایا جاتا ہے تو لوگ کھڑے ہوتے ہیں، قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر پر صرف تالیاں بجاتے ہیں اور جب آپ کی تصویر نظر آتی ہے تو پھر کھڑے ہو کر بہت دیر تک تالیاں بجاتے ہیں‘‘۔ میڈیا منیجروں کی ان باتوں سے ایوب خان بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ کسی روز فلم دیکھنے جائیں گے پھر وہ دن آ گیا، ایوب خان نے بھیس بدلا، چترالی ٹوپی پہنی، گرم شال اوڑھی اور پنڈی صدر کے ایک سینما کی تیسری رو میں جا بیٹھے۔ فلم کے آغاز سے پہلے قومی ترانہ سنایا گیا، ایوب خان بھی لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ترانے کے بعد جب قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر دکھائی گئیں تو لوگوں نے تالیاں

بجائیں، ایوب خان کا من خوش تھا کہ میڈیا منیجروں نے انہیں سچ بتایا ہے کہ وہ لوگوں میں بہت مقبول ہیں، خیالات کی اسی گردش میں اسکرین پر ایوب خان کی تصویر نظر آئی تو سب لوگ کھڑے ہو کر تالیاں بجانا شروع ہو گئے مگر ایوب خان بیٹھے رہے، تالیاں بج رہی تھیں کہ اسی دوران پچھلی لائن سے کسی نے ایوب خان کا کندھا تھپتھپایا اور کہا ’’او پاپا! کھڑے ہو کر تالیاں بجا، نہیں تو یہ آپ کو ڈنڈے ماریں گے‘‘۔ ساری مقبولیت کا بخار اتر گیا اور ایوب خان منہ چھپائے فلم دیکھے بغیر ہی آ گئے، یہ ہوتی ہے فلاپ فلم۔ ہماری ملکی سکرین پر بھی ایک فلم کی نمائش جاری ہے، فلم کامیاب نہیں ہو پا رہی، اس فلم کی کامیابی کے لئے الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا پوری طاقت سے استعمال کیا گیا ہے، انتظامی ہتھکنڈے بھی آزمائے گئے ہیں، ویسے آپ انہیں انتقامی ہتھکنڈے بھی کہہ سکتے ہیں۔ فلم کی ناکامی کی بڑی وجہ حقیقت سے دوری ہے۔ قومی اسمبلی کی سابق رکن اور جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو کہتی ہیں ’’میں اکثر سوچتی ہوں کہ میری دوست عالیہ حمزہ ملک یا تو بہت چست ہیں یا پھر چھلاوا ہیں کیونکہ 5 بج کر 45 منٹ پر وہ جناح ہاؤس پر حملہ آور ہوتی ہیں اور پورے ایک منٹ کے بعد یعنی 5 بج کر 46منٹ پر رائیونڈ کے قریب کسی تھانے کو آگ لگاتی ہیں اور اس کے پانچ منٹ بعد پتہ نہیں کس طرح عالیہ حمزہ ملک میانوالی کے ائیر بیس پر حملہ آور ہو جاتی ہیں، معلوم نہیں ایسا کون سا جہاز تھا جو لاہور سے پانچ منٹ میں میانوالی پہنچ گیا، مجھے شک ہے کہ عالیہ حمزہ چھلاوا ہیں‘‘۔ سائرہ بانو نے چستی کی بات کی ہے، ہماری طرف سے سستی کی بات سن لیں۔ لاہور پولیس نے ایک سال بعد کئی ماہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے شاہ محمود قریشی پر 8کیسز بنا دیئے ہیں، لاہور پولیس نے جس دن کا واقعہ بیان کیا ہے، اس دن شاہ محمود قریشی لاہور نہیں بلکہ کراچی تھے۔ اگر عالیہ حمزہ 5 منٹ میں لاہور سے میانوالی پہنچ سکتی ہیں تو شاہ محمود قریشی بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں، ہو سکتا ہے شاہ محمود قریشی کے ثبوت ایک سال تک جنات نے چھپا رکھے ہوں۔ جب ہر طرف چھلاوے ہوں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بقول عباس تابش

ستم تو یہ ہے کہ پتلی بٹھا کے مسند پر

کہا گیا کہ یہی فیصلہ عوام کا ہے