تیسری دنیا کی کہانی سے کیا نتائج اخذ کروں؟

June 15, 2024

نوبل انعام یافتہ برطانوی سائنس دان سراینڈریو ہکلے کا نام تو ہم میں سے بہتوں نے سنا ہوگا وہ رائل سوسائٹی لندن کے صدر بھی رہے۔ حال ہی میں ان کا ایک لیکچر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ عنوان تھا ’’سائنس اور سیاست‘‘ انہوں نے لکھا کہ سائنس کی تحقیقات میں جو غیر معمول وسائل درکار ہوتے ہیں وہ اس وقت صرف یورپ کے ممالک میں ’’اتحا دی پروگرام‘‘ کے ذریعے ممکن ہوا ہے نہ کہ ذاتی وسائل کے ذریعے۔ انہوں نے لکھا کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ درد ناک صورتحال غیر ترقی یافتہ ممالک کی ہے وہ سائنسی تحقیقات میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک بہترین صلاحیتوں کے مالک دماغوں کو انہی غیر ترقی یافتہ ممالک سے لے رہے ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جن نوجوانوں کے سرپرستوں نے مغربی قوموں سے لڑائی کی تھی کہ وہ ان کے ملکوں کو لوٹ رہے ہیں اور بے پناہ قربانیوں کے بعد انکے قبضہ سے آزادی حاصل کی تھی اب انہی کی بہترین اولاد خوداپنی مرضی سے بھاگ بھاگ کران ملکوں میں جا رہی ہے تاکہ وہ ان کی صلاحیتوں کو لوٹیں اور انکے ذریعہ اپنی عالمی قیادت کو برقرار رکھیں۔ اس لوٹ مار سے بچنے کی واحد صورت وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں برطانیہ نے اختیار کیا ہے یعنی ایشیا میں مختلف ممالک کےمشترکہ وسائل سے اعلیٰ ترین سائنسی تحقیق کا آغاز کرنا تاکہ ان ملکوں کے اعلیٰ سائنسی ذہنوں کو خود انکےاپنے ملک میں کام کے وہی مواقع مل سکیں جس کیلئے وہ مغربی ملکوں میں جاتے ہیں یا مستقل ہجرت کر جاتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ ممالک یعنی تیسری دنیا میں دو ملک بھی ایسے نہیں ہیں جو حقیقی معنوں میں اتحاد و اشتراک کے ذریعے کام کرنےکیلئے تیار ہوں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ تخریب کے عنوان پر لوگوں کو متحد کرنا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور تعمیر کے عنوان پر متحد کرنا سب سے مشکل کام۔ کیسی عجیب تھی وہ آزادی جو خون کے بہائو کے ذریعے حاصل کی گئی تھی اور کیسی عجیب ہے وہ غلامی جو صلاحیتوں کے بہائو کے ذریعے دوبارہ ہماری طرف لوٹ آئی ہے آپ اس تلخ حقیقت سے یقیناً واقف ہونگے کہ ترقی پذیر ملکوں سے ہر سال پچاس ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین اور سائنس دان اپنے ملک کو خیر باد کہہ کر مغربی ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ’’تجارت اور ترقی‘‘ کی رپورٹ میں جو اعداد و شمار فراہم کئے گئے ہیں وہ بے حد چونکا دینے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2020 کے دوران میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف ہجرت کی یوں ان کی غریب قوموں کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف یہ مغربی ممالک ان ماہرین کے ہونے سے 15؍ ارب ڈالرز کی سالانہ بچت کرتے ہیں۔ صرف امریکا میں بسنے والے اور کام کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹروں کی تعداد 72فیصد ہے۔ ناسا جیسے اہم ادارے میں صرف بھارتی 42فیصد افراد کام کرتے ہیں۔ امریکی ایوا ن نمائندگان کے امور خارجہ کے جاری کردہ ایک مطالعہ کے مطابق 2020 سے لیکر 2021میں تیسری دنیا کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی امریکہ کو منتقلی کی بنا پر امریکہ کو دو ارب ڈالرز کا فائدہ پہنچا تھا جسے ’’قابل قدر وسائل کا رضا کارانہ تحفہ‘‘ قرار دیاگیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2018 سے 2019 تک کے دوران امداد دینے والے تین بڑے ملکوں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو 46 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی، دوسری طرف غریب قوموں کے ماہرین کی آمد سے ان تینوں ملکوں کو 62 ارب ڈالرز کا فائدہ پہنچا تھا۔ابھی میں نے کہا ہے کہ 2015 کے عشرے میں تیسری دنیا کے پانچ لاکھ ماہرین نے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کی۔ سائنس دانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور بے شمار دیگر شعبوں کے ماہرین کی محض یہی تعداد ان ماہرین کی تعداد سے کم از کم ایک ہزار فیصد زیاد ہ ہےجنہوں نے مغربی دنیا کی کایا پلٹ دی تھی۔ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے بہت سے ملکوں کی صورت حال یہ ہے کہ ہر سال جتنے ماہرین تیار ہوتے ہیں ان کا 20 سے 70 فیصد حصہ مغربی ملکوں کی طرف ہجرت کر جاتا ہے یوں یہ ملک صنعتی دور میں داخل ہونے کیلئےلازمی سائنس اور فنی مہارت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ پاکستان تیسری دنیا کے ان بدقسمت ملکوں میں شامل ہے جس کے اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین کا ایک بڑا حصہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اس سے ملک اور قوم کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا سائنسی انداز میں کبھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ البتہ پاکستان کے وزرائے اعظم اپنی ہر دوسری پریس کانفرنس میں یہ ضرور بتاتے رہتے ہیں کہ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کی طر ف سے کتنے کروڑ ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔ مغربی حکومتیں ماہرین کے اس بہائو پر دل ہی دل میں خوش ہوتی ہیں جب ان سے ان کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ اسے حیلےبہانوں سے ٹال دیتی ہیں۔ یہ نقصان عارضی ہو تو شاید غریب قومیں اسے برداشت کرسکتی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے اثرات بے انتہا دور رس ہیںوجہ یہ ہے کہ ماہرین کی ہجرت پسماندہ ملکوں کی جنگ و جدل اورتعلیمی پسماندگی کو برقرار رکھنے کا وسیلہ بن رہی ہے۔ تاہم ماہرین کی ہجرت روز بروز بڑھ رہی ہے ترقی یافتہ ملکوں نے اس سلسلے میں غریب قوموں کی مدد کرنے سے انکار کردیا ہے، وہ یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم نے انہیں آنے پر مجبور تو نہیں کیا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ملکوں کے آپس کے جھگڑے ختم ہوں تو یہ ممالک ترقی کی راہ پرگامزن ہوں اور پھر تیسری دنیا کے حکمران ان ماہرین کیلئے حالات کو سازگار بنائیں تو ہجرت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ پیارے قارئین! یہاں تک کالم لکھا تھا کہ آج کے ڈچ اخبار میں پاکستانی فوج کے ایک سابق سربراہ، سیاست دان اور دانشور کا یہ بیان نظر سے گزرا ’’کشمیر کا مسئلہ حل بھی ہو گیا تو بھی بہت سے مسائل باقی ہیں‘‘۔

یاد رہے کہ ریٹائرڈ جنرل صاحب کے بیان کا میرے موجودہ کالم سے کوئی تعلق نہیں ۔