اور کیا کچھ ہوگا؟

June 15, 2024

ایک صحافی کی گرفتاری پر میرا صحافی دوست کہنے لگا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے، جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے عرض کیا، آپ نے بجا فرمایا کہ جنگوں کے بھی اصول ہوتے ہیں مگر یاد رکھئے! جنگلوں کے اصول نہیں ہوتے۔ چلو اب بجٹ کی بات کرتے ہیں، بجٹ کا بڑا چرچا ہے، ایک ایسے ملک کا بجٹ، کیسا ہو سکتا ہے جس میں سیاسی استحکام نام کی کوئی چیز نہیں، جس کی مقروض معیشت ہچکیاں لے رہی ہو اور جس کے سماج میں خوف اور بد امنی کی لہر ہو، جہاں سماجی تقسیم کے سبب نفرت بڑھ رہی ہو۔ ہمارے وزیر خزانہ نے لفظوں کے گورکھ دھندے کا ایسا رندا پھیرا ہے کہ صورتحال ملائم ہو گئی ہے، لفظوں کی جادوگری کے طفیل انہوں نے بجٹ کافی رنگین اور پر کشش بنانے کی کوشش کی ہے مگر اس ملائم کوشش پر ایک ہی بات پانی پھیر دیتی ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ دو لاکھ اسی ہزار کا مقروض ہو گا۔ دنیا میں بہت سی ریاستیں کسی بھی بچے کی پیدائش پر مختلف انعام و اکرام کا اعلان کرتی ہیں، پتہ نہیں کتنے فنڈز ہر ہفتے بچے کے نام پر پہنچ جاتے ہیں، ہماری سرکار نے بھی اپنے بچوں کو انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے، سو ہم پیدا ہونے والے ہر بچے کو دو لاکھ اسی ہزار روپے کا مقروض بنائیں گے، یہ وہ قرضہ ہے جو پیدا ہونے والے کے نہ باپ نے لیا نہ دادا نے، پاکستان پر مجموعی قرض 67ہزار پانچ سو اسی ارب روپے ہو گیا ہے۔ ہمارے دیسی کم ولایتی وزیر خزانہ نے دفاعی بجٹ کو توڑمروڑ کر پیش کیا ہے حالانکہ پنشن کا 660ارب، دفاعی پیداوار کا 10 ارب، ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ 7ارب، کنٹونمنٹ بورڈز کے تعلیمی اداروں کا 14ارب الگ سے ہے۔ آپ اسے دفاعی بجٹ میں ڈھونڈنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ہمارے وزیر خزانہ ان رقوم کو دفاعی بجٹ میں شامل ہی نہیں کرنا چاہتے، ان کی کیا شان بے نیازی ہے کہ انہوں نے فوجی پنشنوں کو بھی دفاعی بجٹ سے باہر کر دیا ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ چوہدری اورنگزیب رمدے کا کہنا ہے کہ ’’سب لوگوں کو فائدہ ہونا چاہئے، کوئی نان فائلر تو ہونا ہی نہیں چاہئے‘‘۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’نان فائلر بیرون ملک نہیں جا سکیں گے، نان فائلر کو موبائل کالز پر 75فیصد ٹیکس دینا ہو گا‘‘۔ میرے پیارے دیس کے ساٹھ ستر فیصد لوگ دیہات میں رہتے ہیں، ان بے چاروں کو گوشواروں کا کیا پتہ؟ ان کی بلا جانے فائلر اور نان فائلر کیا ہوتا ہے؟ پتہ نہیں وہ فائلر کیسے بنیں گے؟ دیہاڑی دار طبقہ پتہ نہیں فائلر کیسے بنے گا اور گھریلو عورتوں کو پتہ نہیں کیسے فائلر بنایا جائے گا؟

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15سے 25 فیصد اضافہ کر کے کم از کم تنخواہ 37ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے، 37ہزار میں پتہ نہیں کس کا گھر چلتا ہے؟ ویسے اتنی بڑی رقم میں تو دو چار گھر چلائے جا سکتے ہیں۔ 40ارب سے فائر وال بنائی گئی مگر تسلی نہ ہو سکی، دل کی تسلی کیلئے موبائل فونز پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ بجٹ کے گورکھ دھندے میں اپنے کاروبار کا بھی خوب خیال رکھا گیا ہے، سولر پینل کیلئے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر خصوصی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے، گاڑیوں کی رجسٹریشن کے ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، اس اہم موڑ پر بھی نان فائلر کو فراموش نہیں کیا گیا یعنی نان فائلر جب بھی گاڑی رجسٹر کروائے گا تو اسے 45فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل کے معاملے میں تو وزیر خزانہ نے یکا پھینکنے سے گریز نہیں کیا، اس یکے کے تحت پیٹرولیم لیوی 60سے بڑھا کر 80فیصد کر دی گئی ہے، قربانی کی عید پر اس سے بڑی قربانی قوم کیلئےکیا ہو سکتی ہے۔ بجٹ سے کئی اہم پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں، روز ویلٹ ہوٹل سمیت کئی اثاثے بیچے جائیں گے، پاکستانی ائیر پورٹس کو آؤٹ سورس کیا جائے گا۔ رہ گئی سٹیل مل تو وہ بھی کسی کباڑیے کو دے دی جائے گی۔ لفظوں کے گورکھ دھندے میں اس بات کو یاد رکھنا چاہئے تھا کہ 80 فیصد لوگوں کی آمدن تیس ہزار یا اس سے کم ہے، اس کا مطلب ہے کہ بیس کروڑ پاکستانیوں کیلئے زندگی گزارنا پل صراط پرسے گزرنے کے مترادف ہے، باقی ساڑھے تین کروڑ پاکستانی اپنا بھرم قائم رکھنے کی آرزو میں ادھر ادھر سے قرض لے کر مزید مقروض ہوتے جا رہے ہیں۔ بس اس ملک میں پانچ لاکھ افراد خوش ہیں، ان پانچ لاکھ میں سے کسی کو کیا پتہ کہ غربت کس بلا کا نام ہے، غربت میں کیسے جیا جاتا ہے۔

ابھی چونکہ بجٹ سیشن جاری ہے تو ایسے میں مجھے خیال آ رہا ہے کہ دنیا بھر میں ریاستیں ٹیکسوں کے عوض لوگوں کو سہولیات دیتی ہیں، ہماری ریاست سہولیات تو دور کی بات جان، مال اور عزت کا تحفظ یقینی بنا دے تو بڑی بات ہے۔ بدقسمتی سے ہماری ریاست کے انتظامی اداروں کے مختلف عناصر کی نظریں لوگوں کے مال، جان اور عزت و آبرو پر لگی ہوتی ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار میں یہ تینوں چیزیں محفوظ نہیں ہیں اور جس دن یہ چیزیں محفوظ ہو گئیں تو ملک ترقی کر جائے گا، فی الحال تو وزیر اعظم رہنے والوں کی بھی یہ تین چیزیں غیر محفوظ ہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس

جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)