نظام عدل کی تلخیاں

June 24, 2024

جان کی امان پاؤں تو اس ملک کو تباہی کی دہانے پر پہنچانے والے اداروں اور طاقتور مافیا جو سیاستدانوں کے لبادہ میں اس ملک کو نفرتوں کی دلدل میں دھکیلنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں کچھ بیان کرسکوں۔ویسے تو کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جسے پورے یقین کے ساتھ برائیوں اور بدعنوانیوں سے پاک قرار دیا جاسکے لیکن معاشرے کے پسے ہوئے طبقہ کا ماننا ہے کہ تھانے اور کچہریاں انصاف کی خریدوفروخت کی کھلی منڈیاں ہیں جہاں بھاری معاوضوں پر انصاف خریدا جاسکتا ہے اور فیصلوں کی سمت مجرموں کے حق میں تبدیل کی جا سکتی ہے جبکہ دنیا بھر میں تھانے امن کا علامتی مسکن اور کچہری نظام عدل کے نمائندہ ایوان تصور کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں تھانوںاور کچہریوں میں ہونے والی کرپشن، بدعنوانی اور رشوت خوری کے علاوہ انصاف اور جھوٹے گواہوں کی خریدوفروخت قانونی تصور کی جاتی ہے۔برے وقت میں ہر ادارہ اپنی ذمہ داریاں دوسرے ادارے کے سر تھوپ کر راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جسے صدق دل سے بدعنوانی، بددیانتی اور کرپشن سے پاک قرار دیا جاسکتا ہو۔ہر ادارہ ملک اور نظام کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور اس کی جڑوں میں بارود بھرنے میں لگا ہوا ہے لیکن نظام کی اصلاح کے نظریہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔کیا تفتیشی، تحقیقاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کوئی ایک سربراہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے یہ منصب میرٹ پر حاصل کیا ہے اور وہ سیاستدان حکمرانوں کا غلام نہیں بلکہ ریاست کا وفادار ہے؟اس بات سے انکار نہیں کہ پولیس اور دوسرے تفتیشی اداروں میں پیشہ ور اور دیندار تفتیشکار موجود ہیں اور وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد دو تین فیصد سے زیادہ نہیں جبکہ ان کا اسٹاف ان سے اقلیتوں والا سلوک کرتا ہے اوربسا اوقات انہیں بھی کسی دباؤ کے تحت حالات سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اداروں پر راج کرنے والا کرپٹ مافیا انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کے بہانے کی تلاش میں رہتا ہے۔کہتے ہیں کہ تفتیش کار لفظوں کے ہیر پھیر اور شواہد کو توڑ مروڑ کر مقدمہ کی ضمنیوں میں شامل کرکے مجرموں کو مدعی اور مدعیوں کو مجرم ثابت کرنے کے فن پر عبور رکھتا ہے اور جرم کی ایسی فریم بنا کر پیش کرتا ہے کہ جج اس فریم میں پھنس کر وہی فیصلہ کرتا ہے جو مجرم چاہتا ہے۔ایسی سیکڑوں نہیں، ہزاروں داستانیں تھانوں اور عدالتوں کے برآمدوں میں بکھری پڑی ہیں جس میں کئی بے گناہ کسمپرسی کی حالت میں پولیس اور عدالتی اہلکاروں کی’’معاشی تقاضے‘‘ پورے نہ کرنے کے ’’جرم‘‘ میں پھانسی کے پھندوں پر جھول کر’’امر‘‘ ہو گئے۔ایک مثال جو اب داستان بن چکی ہے اور اسے داستان گوئی کے انداز میں ہی بیان کیا سکتا ہے کہ ایک بزرگ جو اپنی عمر کی 80 پیڑیاں عبور کر چکا ہے بیان کرتا ہے کہ اس کے ایک قریبی رشتہ دار نے عدالت میں اس کی دس مرلہ ذاتی زمین کی ملکیت کا دعویٰ دائر کردیا جب اس کی عمر 40برس تھی لیکن آج 80برس کا ہوں لیکن بوسیدہ عدالتی نظام کی وجہ سے میں اپنی زمین کی ملکیت ثابت نہیں کر پا رہا ہوں اور معاملہ وہیں کھڑا ہے جہاں سے 40سال پہلے شروع ہوا تھا۔ایک اور عدل جو ایک عدالت نے اتنی سرعت کے ساتھ کیا جس سے گمان ہوتا ہے کہ جج نے کیس کی سماعت سے پہلے ہی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ مجرموں کو قرآن و حدیث کا سہارا لے کر بے گناہ قرار دینا ہے اور جج صاحب نے استغاثہ کے دلائل سنے یا سمجھے بغیر یہ قرار دیتے ہوئے کہ دس گناہگاروں کو بری کردینا ایک معصوم اور بے گناہ کو سزا دینے سے بہترہے۔حالانکہ تفتیشی ٹیم نےگیارہ سنگین مقدمات میں ملوث ملزموں کے قبضہ سے وہ شواہد برآمد کئے جن کی بنیاد پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور گرفتار ہوئے۔پسے ہوئے طبقے کی جانب سے تھانوں اور کچہریوں کے حوالے سے اس منفی ردعمل کا اظہار حقیقت پسندانہ تجربات کی روداد ہیں جنہیں سننا، برداشت کرنا اور ان کا مداوا کرنا اعلیٰ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں ورنہ روز حشر اس تلخ سوال کا جواب بھی طلب کیا جائے گا۔