آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا

June 17, 2024

ایک باپ کا اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے رضائے الٰہی کی خاطر ذبح کردینے اور بیٹے کا بلا حیل و حجت جان قربان کردینے پرتیار ہوجانا انسانی تاریخ کا ایسا محیرالعقول واقعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو مویشیوں کی قربانی کرکے علامتی طور پر اسی سنت ابراہیمی ؑکی یاد تازہ کرتے ہیں لیکن اس عبادت کی اصل روح یہ جذبہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر اپنی عزیر ترین متاع بھی قربان کرنے پر ہمہ وقت تیار رہے۔ اپنی پسند و ناپسند کو اپنے خالق و مالک کی ہدایات کے سانچے میں ڈھال لے۔ اپنے تمام معاملات میں اللّٰہ اور رسولؐ کے فیصلوں پر راضی رہنا ہی رب کی خوشنودی پانے کا واحد طریقہ اور قربانی سمیت تمام عبادات کا اصل مقصود ہے۔اسی طرح زندگی بسر کرنے کا نام تقویٰ ہے اور قرآن پاک میں خدائے ذوالجلال نے یہ صراحت کرکے کہ ’’ نہ تمہاری قربانیوں کے گوشت اللّٰہ کو پہنچتے ہیں نہ خون،اس تک تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ قربانی کا اصل مقصد پوری طرح واضح کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ان ہی لوگوں کی قربانی قابل قدر ٹھہرے گی جن کا مقصد اسے ایک رسم کے طور پر انجام دینا نہ ہو۔ جو یہ عمل اپنی دولت کی نمائش کی خاطر یا محض گوشت کھانے کیلئے نہ کریں۔فی الحقیقت قربانی ہی نہیں تمام عبادات کا مقصد یہی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللّٰہ کی فرماں برداری یعنی تقویٰ کی روش اپنائی جائے۔ اسی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ’’ تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘ فرماکر آخرت ہی نہیں دنیا میں بھی عزت وسرفرازی کی ضمانت دی ہے۔ لیکن انفرادی مثالوں سے قطع نظر کیا آج مسلم معاشرے بحیثیت اجتماعی کسی بھی درجے میں اس شرط کو پورا کرتے نظر آتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا ممکن نہیں۔ ہماری تمام عبادات ’’ رسم اذاں رہ گئی ، روحِ بلالی نہ رہی‘‘ کی کیفیت کی آئینہ دار ہیں۔ دنیا میں ستاون بظاہر خود مختار مسلم ریاستوں کی موجودگی کے باوجود کسی ایک میں بھی اسلام کا اجتماعی نظام نافذ نہیں ۔ دنیا بھر میں وسائل حیات اور دولت کی غیر منصفانہ و ظالمانہ تقسیم کے اصل سبب سودی نظام معیشت کو قرآن میں اللّٰہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیے جانے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ’’ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں‘‘۔ خدائی ہدایت کی ضرورت سے بے نیاز مادّہ پرستانہ مغربی نظام زندگی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح پورے عالم اسلام میں بھی رائج ہے۔ سیاست، معاشرت، معیشت، عدالت، قانون، تعلیم غرض زندگی کے ہر شعبے میں مسلمان غیروں کے نقال ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود کرہ ارض پر وہ سب سے بے وقعت انسانی گروہ ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ پچھلے آٹھ ماہ سے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام کی شکل میں ہورہا ہے اور ستاون اسلامی ملکوں کے حکمراں غاصب اور ظالم اسرائیل کے خلاف کوئی فوجی اقدام تو کیا کسی معاشی پابندی کی کارروائی میں بھی ناکام ہیں جبکہ قرآن کی چوتھی سورۃ میں اللّٰہ کا واضح فرمان ہے کہ ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللّٰہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں اے ہمارے رب ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے‘‘۔قرآن کے ان صریح احکام کی روشنی میں یہ امر بالکل عیاں ہے کہ مسلم دنیا بے وقعتی اور مسکنت کی موجودہ کیفیت سے اسی صورت میں نجات پاسکتی ہے جب حج، عمرے ، طواف اور قربانی سمیت ہماری تمام عبادات میں ان کی اصل روح یعنی تقویٰ کا جذبہ اور ایمانِ کامل کارفرما ہو۔ بہ الفاظ دیگر ’’آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا، آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا‘‘۔