بجٹ پر عوام اور بزنس کمیونٹی کے تحفظات

June 17, 2024

ہر بجٹ کی ایک سمت ہوتی ہے۔ بجٹ عموماً گروتھ، ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے تشکیل دیئے جاتے ہیں لیکن حالیہ بجٹ صرف ریونیو وصولی پر مبنی ہے۔ وزیر خزانہ اور ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے ملکی معیشت کے ہر شعبے سے زیادہ سے زیادہ ریونیو وصول کرنے کے اقدامات کئے ہیں جبکہ ہمیں مہنگائی میں کمی، تیز جی ڈی پی گروتھ، نئی سرمایہ کاری اور صنعتکاری اور ملکی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے اقدامات کو ترجیح دینا چاہئے تھی۔ پیپلز پارٹی کو حکومت کی بڑی اتحادی جماعت ہوتے ہوئے بھی بجٹ سازی کے مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ بجٹ میں پیش کی گئی کئی اہم تجاویز پر پیپلزپارٹی کو تحفظات ہیں۔ رواں سال 4مارچ کو نئی حکومت سازی میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سے جو معاہدہ کیا تھا، اس پر 50فیصد بھی عمل نہیں کیا گیا۔ معاہدے کی رو سے صوبوں میں پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مشاورت سے بجٹ مختص کیا جانا تھا جو حالیہ بجٹ میں نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کو زرعی شعبے کے Inputs پر سیلز ٹیکس لگانے پر بھی تحفظات ہیں۔ اس صورتحال میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 11اور 12جون کو پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کیا جس میں شریک ممبر پارلیمنٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رویئے پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بجٹ اجلاس میں ٹوکن شرکت کا فیصلہ کیا اور چیئرمین پیپلزپارٹی نے خورشید شاہ، نوید قمر اور اعجاز جاکھرانی کو پارٹی کی طرف سے اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔

قارئین! بجٹ 2024-25ءمیں آئندہ سال 12970 ارب روپے کا ریونیو ہدف رکھا گیاہے جبکہ رواں مالی سال کا ریونیو وصولی ہدف 9252 ارب روپے تھا۔ اس لحاظ سے ایف بی آر کو آئندہ مالی سال 3718ارب روپے کے اضافی ٹیکسز وصول کرنے ہیں جو تقریباً 40فیصد زیادہ اور غیر حقیقی ہدف ہے جس کیلئے حکومت نے مختلف شعبوں کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز میں کمی یا خاتمے کا اعلان کیا ہے جس سے 1768ارب روپے کے نئے ٹیکسز وصول کئے جائینگے۔ حالیہ بجٹ میں نان فائلرز کےگرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے جس میں ان کی موبائل سمز کی بندش، بجلی گیس منقطع کرنے اور بیرون ملک سفر پر پابندی جیسے سخت اقدامات شامل ہیں جبکہ تاجر دوست اسکیم میں رجسٹرڈ نہ کرانے کی صورت میں ٹیکس نادہندگان کے دفاتر اور دکانیں Seal کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ 2024-25ء میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد رکھا گیا ہے جو 2023-24ءمیں 3.5فیصد تھا لیکن ہم زرعی سیکٹر کی 6.25فیصد گروتھ کے باوجود صرف 2.4 جی ڈی پی گروتھ حاصل کرسکے کیونکہ سروس اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز 3 اور 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں صرف 1.2 فیصد ہدف حاصل کرسکے۔ بجٹ میں قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کیلئے 9775 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مجموعی بجٹ کا آدھے سے زائد ہے۔ اس سال PSDP کیلئے سب سے زیادہ 1500 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 2024ءمیں مجموعی جی ڈی پی 382ارب ڈالر رہی اور 2025ء میں 397ارب ڈالر متوقع ہے۔ 2024ءمیں فی کس آمدنی 1680ڈالر رہی جو 2025ءمیں 1797 ڈالر متوقع ہے۔ بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر لیوی میں 20روپے فی لیٹر اضافہ کرکے 60روپے سے 80روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے۔ یکم جولائی 2024 کے بعد سے پراپرٹی کی خرید و فروخت کیلئے مدت کا تعین کئے بغیر کیپٹل گین ٹیکس عائد ہوگا اور رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی خرید و فروخت پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگے گی۔ اس کے علاوہ پلاٹوں کی ایف بی آر ویلیو ایشن میں اضافے کی بھی تجویز ہے۔ بجٹ میں کم از کم اجرت 32000 روپے سے بڑھاکر 37000 روپے کردی گئی ہے جبکہ ایک سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد، 17 سے 22 گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح 35 فیصد اور بزنس کلاس پر 45 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ بجٹ میں مالی خسارے کا ہدف جو 2023-24 میں 7.4 فیصد تھا، کم کرکے 5.9 فیصد رکھا گیا ہے۔ حالیہ بجٹ میں زیرو ریٹنگ ختم کردی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹ سیکٹرز جو پہلے ایک فیصد حتمی ٹیکس دیتے تھے، اب انہیں دیگر سیکٹرز کی طرح 29 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑے گی جس سے ایکسپورٹرز میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ فیڈریشن، چیمبرز اور بزنس کمیونٹی نے حکومت کے اس اقدام پر شدید تنقید کی ہے کیونکہ یہ ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت کو متاثر کرے گی۔ بجٹ میں ہائبرڈ اور لگژری گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ فاٹا اور پاٹا میں صنعتوں کو مقابلاتی بنانے کیلئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی لیکن مقامی صنعت کے دبائو پر اب سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے جبکہ انکم ٹیکس کی چھوٹ میں مزید ایک سال کیلئے توسیع کردی گئی ہے۔ وزیراعظم نے صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی بنانے کیلئے 200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت صنعت کیلئے بجلی کے نرخوں میں 10.69 روپے فی یونٹ کمی اور گھریلو صارفین کیلئے 5.79 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں مختلف سیکٹرز پر سیلز اور دیگر ٹیکسز عائد کرنے سے دوائیاں، سیمنٹ، چینی، دودھ اور ٹریکٹرز مہنگے ہوجائینگے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے آنے والے وقت میں بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار سے افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ دیکھ رہا ہوں جو عام آدمی کی زندگی مشکل بنادے گا۔