بلوچستان: سیاسی مذاکرات

June 22, 2024

بلوچستان ملک کا سب سے بڑا لیکن اتنا ہی زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت یہی کہتی آئی ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل کا حل امن و امان اور تعمیر و ترقی اس کی اولین ترجیح ہیں۔ اس حوالے سے کچھ کام ہوئے بھی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے آغاز حقوق بلوچستان کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا تھا مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ آج بھی سیاسی حق حاکمیت اور ساحل ووسائل پر اختیار کے لئے صوبے میں عوامی تحریک جاری ہے اور اسی پس منظر میں ملک دشمن قوتوں کو بد امنی اور دہشت گردی پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔ گوادر میں گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبے میں امن وامان اور تعمیر و ترقی کے معاملات پر غور ہوا اور تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی ۔ صدر مملکت نے اس موقع پر اپنے خطاب میں بجا طورپرکہا کہ بلوچستان میں سیاسی مذاکرات ہی سے خوشحالی، ترقی اور امن و امان آئے گا۔ صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پرقابو پانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانا ہوگی۔ قابل پولیس افسر تعینات کرنا ہوں گے ۔ دہشت گرد عناصر کو سزا دلانے کے لئے استغاثہ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگااور شہدا کے لواحقین کے معاوضے میں اضافہ کرکے اسے دوسرے صوبوں کے برابر لانا ہوگا۔ صدر نے بلوچستان کے مسئلے کی درست تشخیص کی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ مزید تلخیوں کی صورت میں سامنے آیا جبکہ اس مسئلے کا صحیح حل بامعنی سیاسی مذاکرات ہیں۔ صوبے کے محب وطن عوام کو مذاکرات ہی کے ذریعے مطمئن کیا جاسکتا ہے۔