بجٹ میں ریلیف!

June 27, 2024

جیسا کہ منگل کے روز قومی اسمبلی سے کئے گئے وزیراعظم شہباز شریف کے مختصر خطاب اور وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کےقومی بجٹ پر بحث سمیٹنے کے نکات سے واضح ہے، مالی سال 2024-25ء کا سالانہ میزانیہ انتہائی مشکل حالات میں تیار کیا گیا جس کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی اعانت ناگزیر ہے۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ مذکورہ بجٹ مالیاتی ادارے کی مشاورت سے ان شرائط و تجاویز کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا جن میں مشکلات بھی ہیں مگر ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے کے لئے جن پر عملدرآمد ضروری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی معیشت کو نظم و ضبط میں لانے کے لئے آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات خود ہماری اپنی ضرورت بھی ہیں۔ معیشت کو دستاویزی بنانا، ٹیکس نیٹ بڑھانا اور کئی امور کو ضابطوں میں لانا یسا عمل ہے جس پر برسوں پہلے عملدرآمد شروع ہو جانا چاہئے تھا۔ ان معاملات میں تاخیر اور ٹیکس گریزی کے رجحان کے باعث ملک کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہ توقع بے محل نہیں کہ معاشی نظام میں نظم و ضبط اور ٹیکس نیٹ بڑھنے سے وطن عزیز کے معاشی حالات میں بہتری آئے گی۔ 12جون کو وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے اپنی بجٹ تقریر میں جو تجاویز پیش کیں، ان پر پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ میں بھی غور کیا گیا جس کے بعد 119سفارشات قومی اسمبلی کو بھیجی گئی تھیں جن میں سےکئی کوقبول کرلیا گیا ہے۔ صنعتی شعبے سمیت دیگر حلقوں کی طرف سے بعض معاملات میں پیدا ہونیوالی ممکنہ رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ۔ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے بھی اہم نکات اٹھائےگئے جن پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ اگلے آئی ایم ایف پروگرام کو پاکستان کا آخری پروگرام بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ سینیٹ آف پاکستان کے پیش کردہ نکات اور مختلف حلقوں کی طرف سے آنے والی تجاویز کی روشنی میں جو اہم فیصلے گئے ہیں، ان میں نان فائلرز کی سم بلاک کرنے اور سفری پابندی عائد کرنے کے فیصلے میںترمیم کا نکتہ بھی شامل ہے۔ انکم ٹیکس کے حوالے سے سم بلاک کرنے اور سفری پابندی عائد کرنے سے پہلے اب نان فائلرز کو ذاتی طور پر شنوائی کا موقع دیا جائے گا۔ماہرین کے مطابق کم انرجی استعمال کرنے والی ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ واپس لینے سے ملک اور عام لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر 25فیصد ،لوکل سپلائر ایکسپورٹرز کے پلانٹس اور مشینری پر 18فیصد سیلز ٹیکس واپس لینے کے اقدام سے ان شعبوں کو 15ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔ اسٹیشنری، دودھ، خیراتی اسپتالوں سمیت بعض ضروری شعبوں کو سہولتوں کی فراہمی وزیر خزانہ نے حکومت کی اولین ترجیح قرار دی ہے۔ ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے کے حوالے سے وضاحت کی گئی کہ صرف عادی لیٹ ٹیکس پیئر پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اگر ٹیکس پیئر نے گزشتہ تین برسوں میں سے کسی ایک برس بھی اپنا ٹیکس ریٹرن وقت پر جمع کروایا ہے تو اس پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہیں ہوگا۔ تنخواہ دار طبقہ توقع کرتا ہے کہ وزیر خزانہ اس کے کاندھوں کا بھاری بوجھ کم کرنے کے لئے بھی کوئی تدبیر نکالیں گے۔ حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری لانے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات سمیت کئی فیصلے دوررس نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔ سرکاری ملکیتی اداروں میں اصلاحات، نجکاری کے عمل میں تیزی لانے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی تدابیر سے اچھے نتائج کی توقعات ہیں۔امید کی جانی چاہئے کہ غریب طبقے کیلئے ضروری استعمال کی اشیا پرمبنی فوڈ باسکٹ کی سستے داموں فراہمی کا کوئی طریقہ جلد بروئے کار لایا جائے گا تاکہ غریب گھرانوں کی پریشانیوں میں کمی کی صورت پیدا ہو۔