ایک اور آپریشن

June 27, 2024

لڑکا بے روزگار ہے، نشے میں پڑ گیا ہے، چوری چکاری بھی کر لیتا ہے، فحش گوئی میں یکتا ہے، محلے میں آتی جاتی خواتین پررکیک جملے کستا ہے، یعنی لڑکے میں سب شرعی و غیر شرعی عیوب پائے جاتے ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کیا کیا جائے، ہمارے پاس اس کا ایک حل ہے، بلکہ یوں کہیے کہ فقط ایک ہی حل ہے۔ لڑکے کی شادی کر دی جائے! لڑکے کی شادی کر دی جاتی ہے۔ اب صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ لڑکا اپنی بیوی پر تشدد کرتا ہے، اُس کازیور بیچ چکا ہے، خرچہ نہیں دیتا، اور زمانہء قبل از ازدواج کے خصائل میں بھی مزید نکھار آ چکا ہے۔لڑکے کو سکٹزوفرینیا ہے، لڑکا بائی پولر ہے، لڑکے کو ڈیپریشن کا مرض ہے، کیا کیا جائے؟ اس کا ایک ہی علاج ہے۔ لڑکے کی شادی کر دی جائے، سب ٹھیک ہو جائیگا۔ لڑکا بچپن سے بُری صحبت میں پڑ گیا تھا، لڑکوں میں خوش رہتا ہے، لڑکیوں میں دل چسپی نہیں لیتا، کہتا ہے میں نے شادی نہیں کرنی، سمجھ نہیں آتا کیا کیا جائے۔ اس مسئلے کا حل تو انتہائی سادہ ہے،کوئی خوب صورت، وفا شعار اور خدمت گزار لڑکی سے اس کی شادی کر دی جائے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ گفتگو آپ نے اپنے ماحول میں بارہا سنی ہو گی، ہر چیز کا آسان حل یہ ہے کہ ’لڑکے کی شادی کر دی جائے۔‘ یعنی مرض کی تشخیص ہی غلط ہے تو علاج کس طرح درست ہو سکتا ہے۔بے روز گاری یا نشے کا علاج نکاح کس بزرج مہر نے تجویز کیا ہے، اختلالِ دو قطبی کا داروُ ازدواجی دُوسراہٹ بھلا کس حکیم کا نسخہ ہے؟ بات یہ ہے کہ سنجیدگی سے مرض کا علاج کرنا ایک طویل، کٹھن اور صبر آزما عمل ہے، جب کہ تلاشِ عروس کی کاوش دو چار’ ورکنگ ڈیز‘ میں کام یابی سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔ہماری ریاست اور معاشرے کو بہت سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بدن فگار ہے، زخم بگڑتے چلے جاتے ہیں، زخموں میں پیپ بھرتی جاتی ہے، مگر ہم سنجیدگی سے ان زخموں کا علاج کرنے کے بہ جائے کوئی وقتی، ’دستی‘، شارٹ کٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ عدالتی نظام گل سڑ چکا ہے اور ہمارے پاس اس مسئلے کا ایک انوکھا حل ہے، طرح طرح کی رنگ بہ رنگی متوازی عدالتیں بناتے جائو ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘، لہذا،فیڈرل شریعت کورٹس سے ملٹری کورٹس تک، درجنوںٹربیونلز سے اسپیشل کورٹس تک، بینکنگ کورٹس سے دہشت گردی کی عدالتوں تک، عدالتیں ہی عدالتیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہماری عدالتیں لڑھکتی لڑھکتی نردبان کے آخری پلہ تک آ پہنچی ہیں۔ عام شہری کو انصاف کی فراہمی کا بنیادی مسئلہ وہیں کھڑا ہے۔پولیس کا نظام ’ـبہتر‘ بنانے کا ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ’’ماڈل‘‘ تھانہ بنا دیا جائے، کوئی اسپیشل فورس بنا دی جائے، موٹر وے کی علیحدہ پولیس کھڑی کر دی جائے، مگر پولیس کا بنیادی نظام ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتا ہی چلا گیا۔ آج بھی ذرا سا کچھ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو تو رینجرز اور ایف سی کو ہائر کیا جاتا ہے، آج بھی پولیس عوام دوست ادارے کے تصور سے نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔ شہریوں کو شہر میں سفر کرنے کیلئے ایک مہذب نظامِ حمل و نقل فراہم کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے کسی ایک شہر میں بھی ماس ٹرانزٹ کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے جسکے تحت بسیں یا ٹرینیں کسی نظام الاوقات کے تحت شہر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑتی ہوں۔ ہمارے پاس اسکا یہ حل ہے کہ کسی شہر کے کسی حصے میںمیٹرو بس یا نارنجی ٹرین چلا دی جائے۔ تو باقی شہر کا کیا قصور ہے؟ اور باقی ملک کا کیا قصور ہے؟ ان کیلئے بسیں اور ٹرینیں چلانے کیلئےکیا آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ ہر روز ہم سنتے ہیں کہ دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، سرکاری تعلیمی ادارے جہالت بانٹ رہے ہیں، تعلیمی نصاب طلباکے سر پر آہنی خول چڑھا رہا ہے، ہمارے پاس اس قومی تعلیمی بحران کا کیا حل ہے، دانش اسکول؟ بڑی اچھی بات ہے اگر چند سو غریب بچے بھی ڈھنگ کے اسکولوں میں پڑھ لیں، لیکن کیا ہمارے کروڑوں بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ـ’’دشمن‘‘ ادا کریگا؟ کیا چھلنی سینے کا علاج ایک دیدہ زیب شیروانی ہو سکتی ہے؟ کینسر کے مریض کی آنکھوں میں سُرمہ ڈالنے سے تو اُسکا علاج نہیں ہوا کرتا۔کرپشن کی روک تھام کیلئے ایف بی آر کے انٹیلی جنس اور انوسٹی گیشن ڈائریکٹوریٹ سے ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ تک، کم از کم نصف درجن ادارے موجود تھے، مگر انکی اصلاح میں لگتی تھی محنت زیادہ، لہذا ان سب اداروں سے اوپر نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نیب نے کرپشن کیا روکنا تھی، وہ خود بدعنوانیوں کا گڑھ بن گیا۔ ملک میں کرپشن کا مسئلہ آج تک جوں کا توں ہے۔ اب یہ ایپکس کمیٹی کس پرندے کا نام ہے؟ پھر وہی حرکت۔ پارلیمان کو کمزور کرنا ہے، اور اس کے اوپر ادارے قائم کرنے ہیں، یعنی مزید حماقتیں۔دہشت گردی کیخلاف تو پہلے بھی آپریشن ہو چکے ہیں، کام یاب آپریشن بھی ہو چکے ہیں، دہشت گردوں کو نکالا بھی گیا اور پھر انہیں دوبارہ لا کر بسایا بھی گیا۔ یہ سب کس ایپکس کمیٹی نے کیا تھا؟ کیا پھر ایسا ہی ہو گا؟ ہم پھر لہولہان ہونگے، کون جواب دہ ہو گا؟ عمریں گزر گئیں ’’آپریشن آپریشن‘‘ کھیلتے ہوئے۔ کیا نتیجہ نکلا؟ یقین جانیے کچھ سال بعد اس ملک میں ایک اور آپریشن ہو رہا ہو گا۔ یہ غلط تشخیص ہے۔ہمارا علاج بہت سیدھا ہے، ایک جواب دہ پارلیمان داخلی اور خارجی پالیسیاں بنائے، سب ادارے ملکر اسکے تسلسل کا اہتمام کریں، پیریڈ! یاد رکھیے کہ سادہ زبان میں ’’آپریشن‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’منڈے دا ویاہ کر دیو۔‘‘