سیاستدانوں نے کچھ نہیں سیکھا

June 27, 2024

پاکستان میں سیاستدانوں نے بس ایک ہی سبق حاصل کیا ہے کہ ماضی اور تلخ تجربات سے کچھ نہیں سیکھنا۔پہلے وفاقی وزیر احسن اقبال صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ عمران خان کو پانچ سال تک پابند سلاسل رکھنا چاہئے اور اب وزیراعظم کے مشیر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے فرمایا ہے کہ حکومت کی کوشش ہوگی بانی پی ٹی آئی کو جتنی دیر جیل میں رکھا جا سکتا ہے ،رکھا جائے۔احسن اقبال نے عوام کے کندھوں پر بندوق رکھ کر یہ بیان داغا تھا اور کہاتھا،لوگ ہمیںآکر کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو عمران خان کو پانچ سال جیل میں رکھیں ورنہ پھر دھرنے ہونگے ،لڑائی جھگڑا ہوگا۔مگر رانا ثنااللہ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر برملا یہ ارادہ ظاہر کیا ہے عمران خان کو جتنی دیر ممکن ہوا جیل میں رکھیں گے کیونکہ اس کا بیانیہ اور ایجنڈا ملک کو غیر مستحکم کرنا اورفتنہ پھیلانا ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان نے 18 اگست 2018ء کو بطور وزیراعظم حلف اُٹھا یا تو میاں نوازشریف اور مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن)کے کئی رہنما جیلوں میں تھے۔حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد جعلی مقدمات بنانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ۔شہبازشریف ،حمزہ شہباز ،خواجہ سعد رفیق ،رانا ثنااللہ ،احسن اقبال،شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل سمیت کئی سیاسی مخالفین کو گرفتار کرلیا گیا۔تمام تر سہولت کاری کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت چل نہیںپارہی تھی ۔اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا تھا کہ اپوزیشن کے پیدا کردہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہورہے ۔لاڈلی حکومت کے ناز نخرے اُٹھانے والوں نے ہر اس شخص کو اٹھا کر جیل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے کسی قسم کی پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز، اخبارات میں شائع ہونے والے کالم ،یہاں تک کہ یوٹیوب کی ویڈیوز اور ٹویٹس تک حذف کروائی جاتی تھیں۔میجر(ر)سلیم شہزاد نیب لاہور کے ڈی جی ہوا کرتے تھے۔ان کی خواہش پر ہونے والی ملاقات میں جو گفتگو ہوئی اس پر میں نے کالم لکھ دیا جس کے شائع ہونے پر بھونچال آگیا۔قومی احتساب بیورو کے موقف پر مبنی جوابی بے نام کالم ادارتی صفحات کی زینت بنا مگر جبر کے اس ماحول میں میراجواب الجواب شائع نہ ہوسکا۔بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح اپوزیشن اور میڈیا کی طنابیں کس کر حکومت کو سازگار ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی گئی مگر معاملات جوں کے توں رہے ۔رانا ثنااللہ کو تو محض اس لئے جھوٹا مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیایہ نوازشریف کو مفاہمت کے بجائے مزاحمت پر اُکسانے والوں میں شامل تھے ۔حکومت کی طرف سے پہلے یہ خواہش ظاہر کی گئی کہ نوازشریف کسی صورت جیل سے باہر نہ آنے پائے کیونکہ اس کے رہا ہونے سے حالات خراب ہوجائیں گے ۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ فرمائش کی گئی کہ نوازشریف کو علاج کے لئے بیرون ملک جانے پر رضامند کیا جائے کیونکہ اس کے جیل میں ہونے کی وجہ سے حالات معمول پر نہیں آرہے ۔چنانچہ نوازشریف کو اس شرط پر لندن جانے کی اجازت دیدی گئی کہ وہ کچھ عرصہ خاموش رہیں گے ۔لیکن یہ مرحلہ شوق طے ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کوئی جادو دکھانے میں ناکام رہی کیونکہ مرض کی تشخیص ہی درست نہیں کی گئی تھی۔حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ حکومت کی اپنی ناقص کارکردگی تھی ۔احسن اقبال اور رانا ثنااللہ کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب موجودہ حکومت بھی اسی طرح کے مغالطو ںکا شکار ہوچکی ہے۔ان کا خیال ہے کہ ملکی مسائل کا حل عمران خان کو قید رکھنے میں ہے۔ان کے باہر آنے کی صورت میں سیاسی حدت بڑھے گی ،یہ خدشات بھی بے جا نہیں کہ عمران خان کے رہا ہونے کی صورت میں ان کے پیروکاروں کو نیا عزم و حوصلہ میسر آئے گا۔لیکن اس کا مقابلہ سیاست کے میدان میں کیا جانا چاہئے ۔آپ تحریک انصاف کے بیانئے کے مقابل جوابی بیانیہ لیکر آئیں ۔انکے پروپیگنڈے کوحکومتی کارکردگی سے شکست دیں ۔

فرض کریں ،ایک کےبعد دوسرا مقدمہ بنا کر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو جیل میں رکھنے کا اہتمام جاری رہتا ہے ،یہ بندوبست کتنا عرصہ چل پائے گا؟ایک سال ،دو سال ،تین سال ،زیادہ سے زیادہ پانچ سال ۔جب آپ کی حکومت ختم ہوگی تب توقیدی نمبر 804کو رہا کرنا ہی پڑے گا ۔تب کیا ہوگا؟اگر تب اس نے باہر آکر آپ کی ساری انتخابی مہم پلٹ دی ،آپ کے سیاسی بیانیے کو شکست دیدی تو کدھر جائیں گے؟آپ نے کبھی پریشر ککر میں کھانا بنتے دیکھتا ہے ،جب اچانک ڈھکن اُٹھاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟اگر لاوا پکتا رہے ،دہکتا رہے تو اچانک پھٹ جانے کے بعد کیسی تباہی و بربادی لاتا ہے ؟موقع کی مناسبت سے ہری چند اختر کے اشعار یاد آرہے ہیں:

کہا ہم چین کو جائیں، کہا تم چین کو جاؤ

کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہوگا

کہا کابل چلے جائیں، کہا کابل چلے جائو

کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو

کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

اسی ردیف اور قافیے پر ہری چند اختر نے کئی اشعار لکھے ہیں۔اگر اس میں حالات و واقعات کی مناسبت سے کچھ تحریف کرلی جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے:

کہا الیکشن میں جائیں ،کہا تم الیکشن میں جائو

کہا خان کا ڈر ہے ،کہا خان تو ہوگا

کہا حکومت بنائیں ہم ،کہا حکومت بنائو تم

کہا عمران کا ڈر ہے ،کہا عمران تو ہوگا

کہا قیدی رہا کردیں ،کہا قیدی رہا کردو

کہا طوفان کا ڈر ہے ،کہا طوفان تو ہوگا

کہا مفاہمت کرتے ہیں ،کہا مفاہمت کرو تم

کہا ،نقصان کا ڈر ہے ،کہا نقصان تو ہوگا

کہاکلمہ حق کہنا ہے،کہا تم کلمہ حق کہہ ڈالو

کہا سلطان کا ڈر ہے ،کہا سلطان تو ہوگا