چینی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں

June 27, 2024

وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ چین اس لحاظ سے کامیاب رہا ہے کہ اس دورے میں چین کی کاروباری کمیونٹی اور بڑی کمپنیوں کے نمائندوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کی کاروباری کمیونٹی کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے نہایت تفصیلی تبادلہ خیال کرنے اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ اس حوالے سے وزارت تجارت، پاکستان بورڈ آف انویسٹمنٹ، پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ محکموں کی طرف سے بھی بھرپور تعاون اور تیاری دیکھنے میں نظر آئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت چین کے ساتھ معاشی تعلقات کو دوبارہ سے فعال بنانے اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کو آگے بڑھانے کے لئے پوری طرح سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ چین میں مجھے بھی پاکستانی وفد کا حصہ بننے کا موقع ملا جس میں سو سے زائد مختلف کاروباری اداروں اور کمپنیوں کے سربراہان شامل تھے۔ اس دورے کے پہلے روز وزیر اعظم شہباز شریف نے جس تقریب میں شرکت کی اس میں چین کی پانچ سو سے زائد کمپنیوں کے سربراہان اور اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ اس کی ایک وجہ تو دونوں ممالک کے گہرے اور مضبوط باہمی تعلقات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران چین میں بزنس کرنے کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ وہاں پر لیبر کی اجرت میں اضافہ ہے۔ ایسے میں پاکستان کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری اور صنعتوں کی پاکستان منتقلی چینی سرمایہ کاروں کے لئے ایک اچھا آپشن ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں سرمایہ کاری چین کی کمپنیوں کی پہلی ترجیح بن سکتی ہے کیونکہ چینی سرمایہ کار پہلے ہی ویت نام، کمبوڈیا، افریقہ اور دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں چینی شہریوں کو سکیورٹی کے حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں وہ اس سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی اور سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کو بیرون ملک منتقل کرنے کے حوالے سے بھی چینی سرمایہ کاروں کو مسائل کا سامنا ہے۔ اسی طرح چین کے درمیانے اور چھوٹے کاروباری اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مختلف محکموں سے این او سی حاصل کرنے اور یوٹیلیٹی سروسز کے حصول میں درپیش مشکلات کو ختم کرنے کے لئے سی پیک کے تحت بننے والے اکنامک زونز میں ون ونڈو کا نظام فعال نہیں کیا جا سکا ہے۔ اگرچہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو ون ونڈو سروسز کی فراہمی کی جا رہی ہے لیکن درمیانے اور چھوٹے کاروباری ادارے اس سہولت سے محروم ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سطح پر متعلقہ ادارے اس حوالے سے فوری اقدامات کریں تاکہ چینی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل غیر ضروری رکاوٹوں کا ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اکنامک ڈیولپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنیوں کو اکنامک زون اتھارٹی بنا دیا جائے تاکہ وہ سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیو ں کو خود ہی یوٹیلیٹی سروسز اور درکار این او سیز کا اجرا کرکے غیر ضروری تاخیر کا خاتمہ کر سکیں۔ اکنامک زونز میں چینی سرمایہ کاروں کو خصوصی ٹیکس چھوٹ اور ڈیوٹی فری مشینری کی درآمد کے علاوہ خام مال اور ایکسپورٹ و ری ایکسپورٹ کے حوالے سے بھی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں۔ چینی سرمایہ کاروں سے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم ہر تین ماہ بعد مختلف کاروباری سیکٹرز کے نمائندہ افراد پر مشتمل وفود چین کے متعلقہ صوبوں اور کاروباری شعبوں کے دورے کریں۔ اس کے لئے متعلقہ سرکاری محکمے ہر سیکٹر کے لئے الگ الگ ایک صفحے کا موازنہ بھی ترتیب دے سکتے ہیں کہ چینی سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان میں سرمایہ کاری دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کی نسبت کیوں زیادہ مفید ہے۔ اس میں لیبر کے اخراجات، ٹیکسز کے حوالے سے چھوٹ اور سرمایہ کاری میں معاون دیگر اہم نکات پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے چین کے مختلف صوبوں اور شہروں میں پہلے سے موجود انڈسٹری کے مراکز پر ریسرچ کر کے ہر بزنس سیکٹر اور انڈسٹری کیلئے الگ الگ پیکیج بھی تیار کئے جا سکتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے۔پاکستان میں صنعتوں کی پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے حکومت نے حال ہی میں بجلی کی قیمت میں ساڑھے دس روپے فی یونٹ کی رعایت کا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے حکومت کو یہ موازنہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ انڈیا، بنگلہ دیش اور چین کے مقابلے میں پاکستان کا انرجی ٹیرف اور لیبر ریٹ کس حد تک مسابقت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں انڈسٹری کو سپورٹ کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے مزید کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پوری تیاری کے ساتھ سیکٹر وائز صرف چین پر ہی فوکس کر لیں تو پاکستان 50 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف باآسانی حاصل کر سکتا ہے۔ بہت سی چینی کمپنیوں نے پاکستانی کاروباری اداروں کے ساتھ ایم او یو بھی سائن کئے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے کو سنجیدہ اور ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔ اس حوالے سے حال ہی میں چین کے اعلیٰ سطحی سرکاری وفد کی پاکستان آمد کے موقع پر ہونے والے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت اور چین سے تعلقات و سی پیک کی غیر مشروط حمایت مثبت پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے۔