سوشل میڈیا کی دیوانگی

June 27, 2024

انسان تنہائی سے ڈرتا ہے اور ویرانوں میں نہیں رہ سکتا۔ دوسرے انسانوں کے قریب رہنے کے اپنے نقصانات ہیں۔ آپ سادہ لوح ہیں تو وہ آپ کا مذاق اڑائیں گے۔ آپ دولت مند ہیں تو لوٹنے کی کوشش کرینگے۔ آپ کتنے ہی نیک اور سمجھدار کیوں نہ ہوں، بری صحبت ہر انسان پر تیزی سے اثر انداز ہوتی ہے۔

نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا

کیکرتے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا

کسی دانا کا قول ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو تنہائی میں نصیحت کی، اس نے اسے سنوار دیا۔جس نے محفل میں نصیحت کی تو مزید بگاڑ دیا۔ اس انسان میں دوسروں کے سامنے اپنی ذلت کا رنج پیدا ہو جائے گا۔

محفل میں زیادہ وقت گزارنے والے انسان کی فطرت تیزی سے بدلتی ہے۔انسانی دماغ میں جبلتیں اس طرح سے گندھی ہیں کہ غیر محسوس انداز میں ہر انسان دوسرے انسانوں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا رہتاہے۔دوسروں کو پچھاڑنے سے دماغ میں ایسے کیمیکلز ریلیز ہوتے ہیں جو اسے خوشی بخشتے ہیں۔ میں ایک دوست پر طنز کرتا ہوں اور باقی تین قہقہہ لگا کر ہنستے ہیں تو جب تک محفل برخاست نہیں ہو جاتی، میں بار بار یہ کوشش کرتا رہوں گا۔ اس دوران ہو سکتاہے کہ دوستی بھی جاتی رہے۔ نفس یا دماغ میں اللہ نے اپنی شدید ترین محبت پیدا کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی تذلیل کبھی نہیں بھولتا۔

مسئلہ صرف اتنا ہے کہ موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ایجادات کے بعد اب ہر انسا ن ہمیشہ محفل میں رہتاہے۔ سوشل میڈیا پہ ہر وقت ہر انسان اپنے نظریات کی ترویج میں مصروف ہے۔ اس کیساتھ ہی ساتھ ہر انسان مخالف نظریات رکھنے والوں کی تذلیل سے لذت کشید کرنا چاہتاہے۔جب میرے طنزیہ کمنٹ پہ ڈیڑھ سو لافٹر والے ایموجی آئیں گے تو کتنا ذلیل ہوا وہ میرے سامنے۔ آپ کسی کی سنجیدہ پوسٹ پر لافٹر والا ری ایموجی دے کر دیکھیں، کیسے وہ آگ بگولہ ہوتاہے۔ وجہ؟ اپنی مستقل تذلیل کا خوف۔ اب وہ ایک اور پوسٹ کرے گا کہ فلاں نے لافٹر والا ری ایکشن دیا تھا؛چنانچہ اسے بلاک کر دیا۔ ایک تماشہ تخلیق ہو جاتا ہے۔عشروں کی دوستیاں اور رشتے سوشل میڈیا نے دنوں میں ختم کر دیئے۔قصہ مختصر یہ کہ سب ایک دوسرے کو ذلیل کرناچاہتے ہیں۔ملحد مذہبی لوگوں کو، ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کو،قدامت پسند لبرلز کو، ایک سیاسی پارٹی والا دوسری پارٹی کو۔شب و روز ایک تماشہ برپا ہے اورہم سب اس کا حصہ ہیں۔جس کا مذاق اڑتا ہے، اسے رنج ہوتاہے۔ بڑے بڑے لوگ ایک دوسرے پہ حملہ آور ہیں۔ کوئی جون ایلیا کو چپیڑیں کھانے والا شاعر ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ ملحد یہ چاہتے ہیں کہ مذہبی لوگوں کو اتنا ذلیل کیا جائے کہ وہ خدا کا نام لینا ہی چھوڑ دیں۔

مسئلہ صرف ایک ہی ہے۔ جیسے اسٹاک ایکسچینج میں کوئی کماتا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس کی جگہ کوئی لٹا رہا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص ہمیشہ کماتا ہی رہے۔ اس کے لٹنے کا دن بھی آکر رہنا ہے، خواہ وہ کتنا ہی بڑا پاٹے خان کیوں نہ ہو۔اس لیے کہ حریف تاک میں ہیں۔ خصوصاً اس وقت، جب کہ وہ دوسروں کوپست و پامال کردینے کی جبلتوں سے بری طرح مغلوب ہو تو غلطی کر کے رہے گا۔ رسالت مآبؐ نے فرمایا تھا کہ مخالف پہلوان کو پچھاڑ دینا آسان ہے، غصے پہ قابو پانا مشکل۔ غصہ کیا ہے؟صرف ایک جبلت۔جب دو، تین، چار جبلتیں ایک دوسرے سے تعامل کرتی ہیں تو خود ہی اندازہ کر لیں کہ وہ کتنی طاقتور ہو جاتی ہوں گی۔ بڑے سے بڑا تیس مار خان، سپہ سالار، وزیرِ اعظم سب ان جبلتوں کے ہاتھوں مجبورِ محض ہیں۔

بڑے بڑے لوگوں کا سوشل میڈیا پہ نروس بریک ڈاؤن ہوتے دیکھا۔ لوگ اب اپنی توانائیوں کاستر اسی فیصد سوشل میڈیا پہ اپنے نظریات کا علم لہرانے میں صرف کر رہے ہیں اور فی سبیل اللہ۔ ملنا کچھ بھی نہیں، سوائے ان لائیکس اور شیئرز کے، جنہیں آپ نہ خود کھا سکتے ہیں، نہ اپنی اولاد کو کھلا سکتے ہیں۔ انسانوں کی اکثریت بیشتر وقت جب سمارٹ فون پہ مصروف رہے گی تو دنیا کے مستقبل کا حساب خود ہی لگا لیں۔ آپ چند منٹ سے زیادہ کسی کام پر فوکس نہیں کر سکتے۔ ماضی میں لوگ دس دس گھنٹے ارتکاز کے ساتھ کام کرتے تھے۔ بہت زیادہ رابطے میں رہنے کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہجوم سے خطاب کرنے والوں کی نفسیات دنوں میں نہیں، لمحات میں بدلتی ہے۔ میں آپ کو ایک اشارہ دیتا ہوں۔ محفل میں ایک مرد کی جملے بازی پر اگر قہقہہ لگانے والا ہجوم مردوں کی بجائے خواتین پہ مشتمل ہو تو اسے کئی گنا زیادہ خوشی حاصل ہوگی۔حبِ جاہ کی جبلت کے ساتھ مخالف جنس میں کشش کی جبلت بھی مل گئی۔ جبلتوں کا یہ تعامل ایک ایساطلسم ہوشربا ہے کہ شاید صرف پیغمبر انِ عظامؑ ہی اسے پوری طرح سمجھ سکے۔ لوگ دوسروں کو ہنسانے کیلئے فحش گوئی کر رہے ہیں۔ اس میں اتنی لذت ہے کہ انسان یہ بھی بھول جاتاہے کہ میری بہن اور بیٹی نے بھی میری یہ پوسٹ پڑھنی ہے۔ لڑکے موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جواب، جبلتوں کا تعامل۔جان بچانے کی جبلت سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے لیکن زیادہ جبلتیں تعامل کر جائیں تو جان جانے کا خوف بھی باقی نہیں رہتا۔ سوشل میڈیا پہ سب نے اپنے دماغ کا اگلا پہیہ اٹھایا ہوا ہے۔ اہلِ علم پاگل نہیں تھے جو ہجوم سے بچتے اور حتی الامکان خاموش رہتے۔ اہلِ علم پاگل نہیں تھے کہ محفلوں میں جملے بازی سے لذت کشید نہ کرتے۔