حقیقی استحکام کے لئے موزوں ترین لمحات

June 27, 2024

استحکام ہی ہماری ضرورت ہے۔ ہماری منزل ہے۔ اور یہی وہ موزوں وقت ہے ۔ استحکام کی بنیاد رکھنے کا۔ جب پوری قوم کو احساس زیاں ہوچکا ہے۔ لوگ جاگ چکے ہیں۔

جو کچھ ہونا تھا۔ ہوچکا۔ اس کے اسباب بھی ہم سب جان چکے ہیں۔ اس عظیم مملکت کے استحکام میں کون کون سے طاقت ور طبقوں کی غلط منصوبہ بندی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بیانات آچکے۔ کتابیں لکھی گئیں۔ آپ بیتیاں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ اقبال کو بیسویں صدی میں تشویش تھی کہ قافلے کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ اب ہم جس دورانیے سے گزر رہے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ فضل و کرم یہ ہے کہ احساس زیاں واہگہ سے گوادر تک ہر سوچ میں موجود ہے۔ متاع کارواں سارے کا سارا نہیں گیا ہے۔ سوشل میڈیا سے قافلے آگے بڑھ رہے ہیں۔ علاقے مختلف ہیں۔ قبیلے الگ الگ ہیں۔ زبانیں اپنی اپنی ہیں۔ فرقے بھی فرق فرق ہیں۔ لیکن شناختی کارڈ ایک جیسے ہیں۔ پاسپورٹ سب کے سبز ہیں۔ ضرورت ہریالی کی ہے۔ سبزے کی ہے۔ سب کڑی دھوپ میں ہیں۔ مگر چھائوں سب کی منزل ہے۔ چھائوں چھیننے والے صدائیں دے رہے ہیں۔ مگر کوئی سنتا نہیں ہے۔ سب سوشل میڈیا کو سن رہے ہیں۔ دیکھ رہے ہیں۔ بڑے میڈیا والے محسوس کررہے ہیں کہ اخبارات کا حلقۂ قارئین سمٹ رہا ہے۔ کسی زمانے کے بہت مقبول ’ٹاک شو‘ اب ناظرین کو ترستے ہیں۔ چھائوں ڈھونڈنے والے جوق در جوق یو ٹیوب کی بصارتوں اور سماعتوں میں اضافہ کررہے ہیں۔ اپنے کلام میں۔ اپنی گفتگو میں حقیقت کے رنگ لانے کی بجائے دیواریں کھڑی کرنے پر اربوں روپے صَرف کیے جارہے ہیں۔ بہت پرانا عوامی شعر جو پہلے بالکل مہمل لگتا تھا۔ اب پوری وضاحت کے ساتھ ذہنوں میں گونج رہا ہے۔

حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

کہ خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

تاریخ بار بار یہ مشورے دیتی رہی ہے کہ اپنے دکھ کو اپنی طاقت بنائو۔ ہر شکست کو دائمی شکست نہیں سمجھو۔ یہ ضرور ہے کہ ہر شکست کو اپنی نا اہلی سمجھو۔ اپنی خامیاں دور کرو۔ گزشتہ صدیاں بہت سے حقیقی واقعات لیے ہمارے سامنے کھڑی ہیں۔ چین ہمارا عظیم دوست ہے۔ اسکی شکستوں اور فتوحات کی داستان اسی ایک صدی کی ہے۔ کتنے طویل تھے مارچ۔ کتنے جدو جہد کرنیوالے قربان ہوگئے۔ مگر انہوں نے مارچ جاری رکھا۔ بالآخر آزاد ہوگئے۔ اس کے بعد بھی زمانے نے ان کیساتھ کیا سلوک کیا۔ امریکہ چین کے بغل بچے تائیوان کو چین تسلیم کرتا رہا۔ ہر ممکن امداد فراہم کرتا رہا۔ چین کے ان برسوں پر 1949 ءسے 1972 ءتک غور کریں کسی آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کسی دشمن کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اپنے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ اپنے ناداروں کو طاقت بنایا۔ حقیقت کو اپنایا۔ ایک جیسے غریبانہ لباس پہنے۔ اور جب بیرونی دنیا سے روابط بھی ہوگئے تو سب سے پہلے چین کو رکھا۔ اپنے افراد کی صلاحیتوں کی قدر کی۔ نام نہاد صدارتی یا پارلیمانی جمہوریت کے سحر میں گم نہیں ہوئے۔ جذباتیت کو مسلط نہیں کیا۔ زمانے کی رفتار سے ہم آہنگ ہوئے۔ آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہیں۔ امریکہ یورپ اس سے خوف زدہ ہیں۔ ایک پٹی۔ ایک سڑک کا فلسفہ عملی طور پر چھوٹے غریب ملکوں کی غربت ناداری ختم کررہا ہے۔ چین کسی ملک کی خود مختاری پر اپنے افکار مسلط نہیں کرتا۔ خود کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ دوسروں پر کمیونزم مسلط نہیں کرتا۔ سوویت یونین کے انہدام سے سبق حاصل کرچکا ہے۔ کاش مسلمان بھی خلافت عثمانیہ کے انہدام سے کوئی سبق سیکھ سکتے۔ پاکستان سقوط مشرقی پاکستان سے کچھ حقائق جان سکتا۔

اب پھر ماشاء اللہ ہماری حکمراں سیاسی قیادت اور فوجی قیادت استحکام کا عزم کررہی ہے۔ پوری قوم استحکام کی تلاش میں ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ انتشار ہر گام ہر لمحے زوروں پر ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحے ہی استحکام کی طرف لیکر جاتے ہیں۔ انقلاب فرانس۔ انقلاب چین۔ انقلاب ایران اور ان سے پہلے یورپ میں نشاۃ ثانیہ ایسے ہی انتشار میں سے نمو پاتی رہی ہے۔ ہم اپنے آپ کو دانشور کہیں۔ تجزیہ کار کا نام دیں۔ اپنے آپ کو مسیحا سمجھیں یا ارسطو۔ ہمیں حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا۔ بھارت ہمارے ساتھ ساتھ ہی بلکہ ایک دن بعد آزاد ہوا۔ انکی عادتیں۔ جبلتیں۔ مزاج ہمارے جیسے ہی ہیں۔ یہ صدیوں سے ہمارے ساتھ ہی پلے بڑھے ہیں۔ بعض قبیلے۔ ذاتیں۔ ایک ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنہیں توفیق دی وہ کلمۂ طیبہ پڑھ کر ’ہجوم مومنیں‘ میں داخل ہوگئے۔ کتنے چوہدری۔ رانا۔ رائو۔ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بھارت میں ہمیشہ حکومت ووٹ سے تبدیل ہوتی ہے۔ کبھی فوج نے مداخلت نہیں کی۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ بھارت میں ایسا کیوں ممکن ہوا ہے۔ قانون کے یکساں نفاذ۔ اور طبقاتی اونچ نیچ کو جمہوریت میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے۔ ابتدائی برسوں میں ہی جاگیرداریوں۔ نوابیوں۔ رجواڑوں کو انہوں نے ختم کردیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ ان 75 سالوں میں قدم قدم بتاتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت شروع سے ہی نوابوں۔ جاگیرداروں۔ سرداروں۔ مخدوموں۔ پیروں ۔ زمینداروں اور سیٹھوں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ ہم نفسیاتی طور پر سماجی انداز میں اس طبقاتی تفاوت کو اپنا مقدر سمجھتے رہے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان بھی اس طبقاتی تفاوت کا نتیجہ ہے۔ جاگیردار۔ سردار۔ زمیندار۔ مخدوم۔ پیر صرف اپنے آپ کو طاقت کا سر چشمہ سمجھتے ہیں۔ مقتدرہ سے ان کا اتحاد اور اختلاف بھی اس نکتے پر ہوتا ہے۔ ایک چھوٹا سا طبقہ جسے ہم اشرافیہ کہتے ہیں۔ جو اپنے ہر مفاد کو تو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنے فرض کو انجام دینا نہیں چاہتا۔ ان میں سے اکثر نان فائلر ہیں۔ یہ طبقاتی فاصلہ ہی انتشار اور استحکام کے درمیان حائل ہے۔ یہی طبقاتی امتیاز سیاسی پارٹیوں کو قومی سیاسی پارٹیاں نہیں بننے دیتا۔ کئی کئی سال سے وفاداری استوار کرکے پارٹی کارکن رہنما بھی شہزادوں شہزادیوں کو پیدائشی طور پر اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔ کبھی آئینی اور جمہوری طور پر وہ پارٹی سربراہی کو اپنا حق نہیں سمجھتے۔ 1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے مارشل لاء نے پھر برادریوں۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو سیاسی کارکنوں کی جگہ پارلیمنٹ پر مسلط کردیا ہے۔ اب جس انتشار کا ہمیں سامناہے۔ یہ عمودی بھی ہے افقی بھی۔ سماجی بھی۔ معاشی بھی۔ اس کیلئے بنیادی انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ وہی قیادتیں جو 1985ءسے باریاں لے کر اپنا اپنا وقت گزارتی رہی ہیں۔ اپنی پانچ سالہ میعاد کی بجائے چیف جسٹس کی میعاد اور آرمی چیف کی میعاد کو دیکھ کر پالیسیاں بناتی رہی ہیں۔ وہ دائمی استحکام کیسے لاسکتی ہیں۔ اس کیلئے اپنی یونیورسٹیاں دینی مدارس ہی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں۔ جہاں تاریخ اور جغرافیہ طبقاتی تفاوت کے بغیر پڑھے جارہے ہیں۔ آج کل کے حالات ہی حقیقی استحکام کیلئے سازگار ہیں۔ قوم میں احساس زیاں جاگ رہا ہے۔ اکثریت حقیقی استحکام چاہتی ہے۔ اس کی طاقت سے یہ استحکام آسکتا ہے۔