سرحد پار آپریشن؟

June 29, 2024

22جون کو منعقد ہونے والےاپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ،جس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف نے کی اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر بھی اس میں شریک تھے،ملک سے دہشت گردی کے انسداد کیلئے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی ۔اس اعلان کے بعد سے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔حکومتی حلقوں بشمول وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے اور پارلیمان کے توسط سے یہ خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کے بعد جمعرات کے روز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئےدو ٹوک الفاظ میںواضح کیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے جبکہ آپریشن عزم استحکام کے تحت ضرورت پڑی تو کالعدم تنظیم کی سرحد پار پناہ گاہیں بھی نشانہ بنائی جاسکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کسی جلد بازی میں نہیں کیا گیا بلکہ حالیہ مہینوں میں دہشت گردی میں جو اضافہ ہوا ہے اور یہ جسطرح معاشی مشکلات سے نکلنے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور پاکستان کی سالمیت سے بڑھ کر کوئی چیز مقدم نہیں۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ،علی امین گنڈا پور کے طالبان سے مذاکرات کے مطالبے کے سوال پر وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے مذاکرات کے بعد جن چار سے پانچ ہزار طالبان کو واپس لاکر بسایا ،اس سے اگر توقعات پوری ہوئی ہیں تو ہمیں آگاہ کیا جائے۔ٹی ٹی پی کے ہاتھوں حالیہ لہر میں جہاں آئے دن پاک فوج کے جوانوں اور افسران کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اس صورتحال سے یہ سوالیہ نشان بھی ابھرتا ہے کہ یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟اگرچہ سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں قابل ذکر کامیابیاں مل رہی ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ جب تک ایک بھی دہشت گرد پاک سرزمین پر موجود ہے یا کوئی سرحد پار سے حملہ کرنے کے مذموم عزائم رکھتا ہے ،ملک کے شہریوں ،فوج اورقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے افسران اور جوانوں کی قیمتی جانوں کیلئے خطرہ بنے رہیں گے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے آنے پر دہشت گرد جس تیزی سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پھیلے اور ملک کا کوئی علاقہ ان کے حملوں سے محفوظ نہ رہا تو کم و بیش پانچ سال کے عرصے میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفسادبرپا کرکے دہشت گردوں کی اکثریت کا خاتمہ کردیا گیا جبکہ بچے کھچے افغانستان بھاگ گئے۔افغان سوویت جنگ کے بعد پاکستان نے جس طرح طالبان حکومت کی اخلاقی مدد کی تھی ،امریکی فوج کے انخلا کے بعد دوبارہ حکومت قائم ہونے پر ان سے جو توقعات تھیں،اور دوحا مذاکرات میں طے پائی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیںاور افغانستان میں پناہ لینے والے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو شہ ملی۔جس سے دہشت گردی کی حالیہ لہر نے جنم لیا۔حکومت پاکستان نے افغان طالبان قیادت کی تمام حجتیں پوری کرنے کے بعد آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ کیا ہے جسے ضرب عضب اور ردالفساد کا تسلسل ثابت ہونا چاہئے۔تاکہ ملک سے دہشت گردی کی ہمیشہ کیلئے بیخ کنی ہوسکے۔ملک کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہئے کہ صحت مند سیاست بھی تبھی پھلے پھولے گی جب ملک میں مکمل امن و امان قائم ہو گا۔ اختلاف برائے اختلاف کا سلسلہ بند ہوجانا چاہئے ۔وزیر دفاع کا کہنا بجا ہے کہ دہشت گردی ختم کئے بغیر ہماری معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہوسکے گی سرمایہ کار صرف پائیدار امن اور سازگار حالات کو خاطر میں لاتے ہیں ۔دہشت گرد جس تیزی سے اپنے مذموم عزائم پورا کرنا چاہتے ہیں ، ہمیں من حیث القوم اس سے بڑھ کر انھیں ناکام بنانا اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔