پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری

July 01, 2024

12 ؍جون کو پیش کیا جانیوالا بجٹ 16دن بعد 28 جون کو قومی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاسوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے بحث میں حصہ لیا اور اپنی تجاویز پیش کیں۔ کراچی سے قومی اسمبلی کے ممبر اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے کی حیثیت سے بے شمار چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے مجھ سے ملاقاتیں کیں جس میں بجٹ میں عائد کئے جانیوالے نئے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز سے اُن کی صنعتوں پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کیا۔ پارلیمنٹ میں پیپلزپارٹی کی طرف سے میں نے اپنی پہلی بجٹ تقریر میں ایوان کو بتایا کہ مجھے FPCCI، کراچی چیمبر، اپٹما، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز (PHMA) اور ڈیری ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی طرف سے بجٹ پر شدید تحفظات ملے جو میں شیئر کرنا چاہوں گا۔ حالیہ بجٹ میں معاشی ترقی کیلئے حکومت کی کوئی سمت نظر نہیں آتی۔ صنعتکاری، ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری کے فروغ اور ملازمتوں کے مواقعوں کیلئے کوئی پالیسی اور اصلاحات نہیں کی گئیں البتہ بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کیلئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔

ٹیکسٹائل سمیت ایکسپورٹ کی دیگر صنعتوں کے فائنل ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کرکے اُنہیں 29فیصد نارمل ٹیکس نظام میں لایا گیا ہے جس پر ایکسپورٹرز کو شدید تحفظات ہیں۔ میں نے بجٹ بحث میں نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈالنے اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ میں نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) میں 20روپے فی لیٹر اضافہ پیٹرولیم مصنوعات کو مزید مہنگا بنادیگا جسے مرحلہ وار بڑھایا جانا چاہئے تھا۔ زراعت میں استعمال ہونیوالی اشیاء ٹریکٹر، بیجوں اور زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس عائد کرنے سے زرعی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور کسان جو گندم اسکینڈل کی وجہ سے پہلے ہی شدید مالی نقصانات سے دوچار ہے، مزید دبائو میں آجائے گا۔ اسی طرح میڈیکل کے 200 سے زائدتشخیصی آلات، دل کے مریضوں کیلئے اسٹنٹ، ہپاٹائٹس کٹس، کینسر، شوگر کے مریضوں اور ڈینگی ٹیسٹوں پر سیلز ٹیکس عائد کرنے سے عام آدمی کیلئے علاج 25 سے 30فیصد مہنگا ہوجائے گا۔ بچوں کی اسکول کی کتابوں، اسٹیشنری آئٹمز اور خشک دودھ پر سیلز ٹیکس عائد کرنے سے افراط زر یعنی مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ میں نے بجٹ میں IPPs کو ادائیگی کیلئے 2800 ارب روپے کی رقم جس میں 70فیصد کیپسٹی سرچارج یعنی بغیر خریدی گئی بجلی کی ادائیگی شامل ہے، پر اعتراض اٹھاتے ہوئے IPPs معاہدوں کی تجدید نئی شرائط پر کرنے پر زور دیا جس میں کیپسٹی سرچارج جیسے نقصان دہ شرائط نہ ہوں۔ بجٹ میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ دنیا بھر میں ان گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے مراعات دی جارہی ہیں تاکہ فیوسل فیول (پیٹرول، ڈیزل) کی امپورٹ میں کمی لائی جاسکے۔ میں نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے پاٹا اور فاٹا سے اسمگلنگ روکنے کیلئے وہاں قائم مقامی صنعتوں پر پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سیلز اور انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی۔ بجٹ کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے صنعتوں کیلئے بجلی نرخ میں 10.5 روپے فی یونٹ کمی جس سے صنعتوں کے بجلی کے بلوں میں مجموعی 240ارب روپے کی کمی آئیگی، کے اقدام کو سراہا جس سے صنعتوں کی مقابلاتی سکت بہتر ہوگی۔

قومی اسمبلی کے ممبر کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کو تحفظ دینا ایک بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری میرا ایک یادگار تجربہ تھا۔ اجلاس کے دوران اسمبلی میں وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر پیٹرولیم اور تمام متعلقہ شعبوں کے وزراء سے روزانہ ملاقات میں بجٹ ترامیم پر بحث ہوتی تھی اور اکثر بجٹ اجلاس رات 12بجے تک جاری رہے۔ IMF کے ساتھ بجٹ کی منظوری ایک مشکل مرحلہ تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میری تجاویز میں سے بیشتر تجاویز کو ترامیم کرکے منظور کرلیا گیا حالانکہ IMF کا زراعت اور کھاد پر ٹیکسز عائد کرنے پر اصرار تھا۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ سالانہ آمدنی پر 10فیصد انکم سرچارج، پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں 20 روپے کے بجائے 10 روپے فی لیٹر اضافہ اور بچوں کی اسکول کی کتابوں اور اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ میڈیکل کے تشخیصی اور سرجری آلات، پاٹا اور فاٹا میں صنعتوں کو ایک سال کیلئے ٹیکس کی چھوٹ، زرعی آلات، کھاد اور زرعی ادویات پر بھی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے لیکن بچوں کے خشک دودھ پر ٹیکس چھوٹ کو دودھ کے عالمی معیار سے منسلک کیا گیا ہے۔ بیرونی فضائی کرایوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور پراپرٹی کی فروخت پر انکم ٹیکس کی شرح 45 فیصد سے کم کرکے 40 فیصد کردی گئی ہے جبکہ سول اور فوجی ملازمین کو جائیدادوں کی فروخت پر ایڈوانس ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ سولر پینل، ٹریکٹر، زرعی ادویات اور بیجوں پر سیلز ٹیکس زیرو فیصد کردیا گیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص رقم 250ارب روپے سے بڑھاکر 364 ارب روپے کردی گئی ہے جس سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی لیکن IMF نے 1400ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں(PSDP) میں سے 250 ارب روپے کی کٹوتی کا مطالبہ کیا ہے۔