بڑھتے قرضے

July 01, 2024

اس تشویشناک صورتحال کے تناظر میں کہ جولائی 2018ء میں وطن عزیز پر غیر ملکی قرضوں کابوجھ 28ہزار ارب روپے تھا،جو بڑھتے بڑھتے اب تک 67ہزار ارب روپے سے متجاوز ہو چکا ہے۔مالیاتی ماہرین کے تخمینوں کے مطابق 2025ءمیں یہ 99ہزار ارب روپے کی سطح پر پہنچ جائیں گے۔اقتصادی ماہر ڈاکٹر مرتضیٰ سید جنھوں نے 2022ءمیں بینک دولت پاکستان کے قائم مقام گورنر کی حیثیت میںقومی خدمات انجام دیں،نے کہا ہے کہ پاکستان قرضوں کے مہلک ترین جال میں پھنس چکا ہےاور قرضوں کا یہ بوجھ ملک کو ڈیفالٹ ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔سابق گورنر کے بقول ماضی کی حکومتوں نے جو بھی قرضہ لیا اسے غیر پیداواری اخراجات پر ضائع کردیا گیا۔دوسری طرف پاکستان دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں قرضوں کی زیادہ ادائیگی کر رہا ہےاور اگلے کئی برس تک ایسا ہوتا رہے گا۔ڈاکٹر مرتضیٰ سید کے مطابق ان قرضوں سے پیدا شدہ صورتحال ملک کو سماجی عدم اطمینان کے خطرناک راستے پر ڈال رہی ہے،جس کے بعد حکومت کے پاس سماجی شعبے کیلئے کوئی وسائل نہیں بچتے جو آبادی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے ،ملازمت کے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں اضافے کی راہ ہموار کرسکیں۔قومی معیشت کی یہ تصویر ذمہ دار حلقوں ،خصوصاً حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہی نہیں ،وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اقتصادی ماہرین کی آرا کی روشنی میں وہ مشکل کام کرلیا جائے جس کی ماضی کی حکومتیں ہمت نہ کرسکیں۔فی الحقیقت معیشت کو قرضوں کی متذکرہ کیفیت تک پہنچانے میں ٹیکسوں کا کمزور نظام کارفرما ہے ۔جس کی وجہ سے محض 33فیصد افراد ٹیکس دے رہے ہیں اور ان میں بھی بڑا حصہ تنخواہ دار طبقے کاہے۔ضروری ہوگا کہ پہلے سےٹیکس نیٹ میں شامل افراد کو مزید زیربار کرنے کی بجائے اس 66فیصد طبقے کو اس نظام میں لایا جائے جو ٹیکس نہیں دیتا۔