آئی ایم ایف اور بجٹ

July 01, 2024

ملک کو درپیش سخت معاشی چیلنجوں کے باوجود فاقی بجٹ کی تیاری اور قومی اسمبلی سے منظوری کے جان گسل مرحلے سے کامیابی سے عہدہ برآ ہونے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے جنگ کو دیئ گئے انٹرویو میں ان حالات پر روشنی ڈالی ہے جن میں یہ سارا عمل مکمل ہوا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ آئی ایم ایف کیساتھ ملکر بجٹ بنانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ ایک طرف مالیاتی ادارے کا دباؤ اور دوسری جانب عوام کی توقعات، مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا۔ انہوں نے اپنے جذبات کے حوالے سے صراحت کی کہ میں سو فیصد عوام کیساتھ ہی رہنے، انکے تمام مسائل حل کرنے اور ان کیلئے زندگی کو آسان بنانے کا آرزومند ہوں لیکن معاشی مشکلات کی وجہ سے بہت کچھ سوچنا سمجھنا پڑتا ہے۔ اس عمومی تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو بلا چون و چرا مان لیا ہے اور عوام کو بجلی گیس کے نرخوں اور ٹیکسوں میں ہوش ربا اضافے کی شکل میں مہنگائی کے سیلاب کی نذر کردیا ہے، وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مالیاتی ادارے کے متعدد مطالبات مانے نہیں گئے کیونکہ اگر ہم آئی ایم ایف کی تمام باتیں مان لیتے تو بہت سے ایسے شعبوں پر بوجھ پڑ جاتا جس کے باعث ملک کی بھاری اکثریت کی مشکلات بے پناہ بڑھ جاتیں۔ انہوں نے بتایا آئی ایم ایف زراعت اور کھاد پر مزید ٹیکس لگانے پر اصرار کر رہا تھا اور اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا لیکن انہوں نے بذات خود مالیاتی ادارے کے وفد سے تمام نکات پر مفصل گفتگو کی اور ان معاملات میں رعایت حاصل کی جسکی وجہ سے زراعت اور کھاد پر مزید ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ وزیراعظم کے بقول آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ بہت سے طبی آلات پر ٹیکس لگایا جائے حتیٰ کہ ان کی خواہش بلکہ کوشش تھی کہ خیراتی اسپتالوں کے طبی آلات پر بھی ٹیکس لگایا جائے لیکن انہوں نے عالمی ادارے کو قائل کیا ایسا کرنا لوگوں کی مشکلات ناقابل برداشت حد تک بڑھانے کا سبب بنے گا لہٰذا حکومت کیلئے ایسے اقدامات ممکن نہیں۔ وزیراعظم کے مطابق بہت سے دیگر ٹیکسوں کے معاملے پر بھی ایک ایک نکتے پر بحث ہو ئی، آئی ایم ایف کو ان تمام معاملات پر راضی کیا گیا جو کہ آسان کام نہ تھا۔ میاں شہباز شریف نے بجٹ سازی کے مرحلے میں عالمی ادارے سے کامیاب مذاکرات کا بھرپور کریڈٹ اپنے متعلقہ ساتھیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ میری پوری ٹیم نے بہت اچھا کام کیا۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ پٹرولیم اور لیوی بڑھانے کا معاملہ آئی ایم ایف سے تعلق نہیں رکھتا۔ بلاشبہ وزیر اعظم اور انکے ساتھی ملک کو از سرنو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے سخت محنت کررہے ہیں اور معاشی اشاریوں میں بہتری کی شکل میں اس کوشش کے مثبت نتائج بھی نمایاں ہیں۔ مہنگائی 36فیصد سے 11فی صد پر آگئی ہے اور امید ہے کہ آنیوالے مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی آئیگی جبکہ دوست ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے واضح اور مثبت پیغامات آرہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اسی تناظر میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم مضبوط معیشت کا خواب پورا کریں گے۔ بجٹ کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کے حصول کا مرحلہ طے کرنا ہوگا جو وزیر اعظم کے مطابق عالمی ادارے کیساتھ ہمارا آخری معاہدہ ہوگا اورجس کے بعد عوام کو مزید ریلیف ملے گا۔ تاہم مالی وسائل کیلئے ملکی ذرائع کا زیادہ سے زیادہ بہتر استعمال کیا جانا ضروری ہے تاکہ بیرونی سہاروں سے جلد ازجلد نجات ممکن ہو۔ آئی پی پیز سے انتہائی مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدے کم سے کم وقت میں ختم کرکے سورج، پانی، کوئلے اور ہوا سے توانائی کے حصول کی جدوجہد جنگی بنیادوں پر شروع کی جانی چاہئے اور ہمہ گیر، بے لاگ و خود مختار نظام احتساب کے ذریعے سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرکے قومی وسائل کو ضائع ہونے سے بہرصورت بچایا جانا چاہئے۔