انتہا پسندی اور ریاستی رویے

July 01, 2024

برٹرینڈرسل کو بیسویں صدی کے ضمیر کی آواز اور تہذیب و انسانیت کا نمائندہ خیال کیا جاتا ہے انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ’’بیسویں صدی آزاد خیالی، عقل پسندی اور سیکولرازم کی صدی ہوگی جب انسان مقدس رہنمائوں سے بے نیاز ہوکر سائنسی اور معروضی انداز سے اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل حل کرینگے‘‘۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں کم از کم ہندوستان اور پاکستان کی حد تک یہ پیشگوئی جزوی طور پر صحیح ثابت نہیں ہو رہی۔ آج سعودی عرب اور انڈونیشیا کی ریاستیں بھی انتہا پسندی کیخلاف اصلاحات کررہی ہیں جبکہ انڈونیشیا کی پوری سول سوسائٹی ریاست کے ان اقدامات کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ریاست نے’’عزمِ استحکام‘‘کے نام سے دہشت گردی کیخلاف اقدامات کا اعلان کیا ہے حالانکہ اس سے پہلے بھی کئی آپریشن ہو چکے ہیں جن سے دہشت گردی میں کمی تو ہوئی لیکن اسکو جڑ سے ختم نہ کیا جاسکا۔ دہشت گردوں کیخلاف بندوق اور بارود سے تو آپریشن کیا گیا مگر اس انتہاپسندانہ ذہن کیخلاف فکری اقدامات نہ کئے گئے جسکی وجہ سے سماج میں رجعت پسندانہ نظریات کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ کابل میں طالبان کی حالیہ حکومت کے آنے سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے اقتصادی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ فوری طور پر بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ ہو اور صنعتیں لگیںتاکہ اقتصادی تنزلی کو لگام دی جا سکے ۔ اگرچہ چین سی پیک کے اگلے مراحل پر کام کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سی پیک کا مستقبل پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے سے منسلک ہے۔ شاید اسی وجہ سے حکمرانوں نے’’عزمِ استحکام‘‘ آپریشن کا اعلان کیا ہے۔ حال ہی میں سوات کے علاقے مدین میں سیالکوٹ سے سیر کیلئے آئے ہوئے ایک شخص پر توہین قرآن کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیا گیا جبکہ اس سے پہلے اسی طرح سری لنکا کے شہری کو سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر قتل کیا جا چکا ہے۔یاد رہے کہ 1860ء سے لیکر 1947ء تک برصغیر میں توہین مذہب کے صرف پانچ مقدمات درج ہوئے اور پاکستان بننے سے لیکر 1980ء تک ملک بھر میں توہین مذہب کے صرف 8مقدمات درج ہوئے جن میں کوئی بھی مقدمہ گستاخ رسول یا قرآن کی بے حرمتی کا نہیں تھا۔ لیکن اس کے بعد ضیاالحق نے اپنے آمرانہ اقتدار کو تقویت دینے کیلئے مذہبی شدت پسندی کو اپنے اثاثے کے طور پر استعمال کیا اور 295C کو قانون کا حصہ بنا دیا۔ واضح رہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں ہے کہ جہاں توہین مذہب کے حوالے سے قوانین رائج ہیں بلکہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں پچانوے ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں توہین مذہب کے قوانین کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، لیکن ان ممالک میں ہجوم لوگوں کو ماورائے عدالت قتل نہیں کرتے کیونکہ وہ ریاستیں اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان میں ہجوم کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں خوفناک اضافہ ہو رہا ہے جس کی اصل وجہ قدامت پرست گروہوں کا ہجوم کو اشتعال دیکر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر اس ہجوم کو انتہا پسند قوتیں استعمال کریں تو معاشرہ تنگ نظری پر مائل ہو جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں یہ ہجوم کئی شکلوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایل ۔کے۔ ایڈوانی نے بی جے پی کی سربراہی سنبھالتے ہی اپنے سیاسی مفادات کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا جس کے نتیجے میں مذہبی ہجوم نے 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کیا اور پھر مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ آج پاکستان میں بھی اسی انتہا پسندی ،فرقہ واریت اور مذہبی عصبیت کے نام پر ہجوم کو متحرک کرکے اقلیتوں، عورتوں اور روشن خیال دانشوروں کو خوفزدہ کرتے ہوئے فرسودہ روایات اور قدامت پرستی کو استحکام بخشا جا رہا ہے۔

آج پاکستانی معاشرے کے ہر شعبے میں رجعت پسندی کو تقویت دی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ غربت کی وجہ سے دنیامیں نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں حکومت سندھ کی جانب سے’’ ہیومن مِلک بینک‘‘ کا منصوبہ بھی اسی کی نذر ہوگیا حالانکہ ترکی، ایران اور یورپی ممالک میں اس طرح کے ادارے بہت عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ سندھ میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن وفاق اوردوسرے صوبوں میں اس قانون کے نفاذ میں شدید رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ۔ پاکستان میں پہلی دفعہ خواجہ آصف نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ریاست اقلیتوں کو تحفظ نہیں دے پارہی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کیخلاف ایک وسیع پیمانے کا پروجیکٹ بنایا جائے جسکی فکری بنیادیں’’ عزم استحکام ‘‘سے الگ ہوں۔ اس سلسلے میں سابقہ چیف جسٹس تصدق جیلانی کے2014ء میں پشاور چرچ پر بم حملے کے فیصلے پرمکمل عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ معاشرے میں نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں کاسختی سے مواخذہ کیا جائے۔ مدرسوں اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں لائی جائیں اور لائوڈ اسپیکر سے اشتعال انگیز پیغامات کی تشہیر پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ دانشور اور مبصرین’’عزم استحکام‘‘کو ایک وقتی اقدام کے طور پر دیکھ رہے ہیں اگر اسکو صرف وقتی اقدام کے طور پر استعمال کیا گیا تو آنے والے وقت میں ہمارے سماج پر نفرت انگیز ہجوم کا مکمل راج قائم ہو جائے گا۔