قوتِ اخوت عوام سے برآمد عالمی نظام

June 29, 2024

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! جیسا کہ جاری موضوع پر ’’آئین نو‘‘ کی گزشتہ اشاعت (25 جون) میں واضح کیا گیا کہ دنیا کے کئی ممالک میں عوام الناس کی(ایٹ لارج) سیاسی بیداری اور موجود غالب استحصالی نظام اولیگارکی (مافیا راج) سے سخت بیزاری نے انہیں اس نظام بد کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ عوام چونکہ نہتے، مفلوک الحال اور اقتدار میں شرکت و اختیارات سے عملاً محروم ہیں سو انہوں نے خصوصاً متاثرہ ممالک اور بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں موجود گنجائش کے مطابق کردار ادا کرنے اور گنجائش کو بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہے جو بہت کامیابی لیکن غیر انقلابی انداز میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے نتیجہ خیز استعمال سے کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔ یوں وہ سیاسی و انتخابی عمل میں بغیر پلیٹ فارم اور قیادت کے بھی اپنی جگہ خود بنانے کے کامیاب تجربے کر رہے ہیں۔ اس میں دو کیس اسٹڈیز آزادی فلسطین کے حوالے سے حماس کی خطرات سے پُر حیرت انگیز بجنگ آمد اور بھارت کے قابل رشک آئینی و انتخابی عمل میں ووٹ کی طاقت سے سیاسی کارپوریٹ مافیا کی ایجنٹ بھاجپا (بھارتیہ جنتا پارٹی) اور اس کے مکمل کنٹرول میں مودی کے گودی میڈیا سے بھارت کی آئینی نظریاتی اساس ’’سیکولر ڈیموکریسی‘‘ پر دو انتخابات میں کامیاب حملے ہیں اس سے آر ایس ایس کی فسطائی فلاسفی ہندتوا (مکمل ہندوبھارت) ویل مینڈیٹڈ ہو کر ہندو بنیاد پرست حکومت میں کامیابی سے ڈھل گئی۔ واضح رہے کہ بھارتی آئین کی روح سے متصادم یہ انہونی قوت عوام کے زور پر ہوئی۔ اسی طرح فلسطینی عوام کا سیاسی پلیٹ فارم حماس اپنے اعتماد اور مورال میں اس درجے پر آگیا کہ وہ بجنگ آمد کے مصداق مذہبی جنونی مکمل ثابت شدہ (مجرم) دہشت گرد ریاست سے متصادم ہوگیاجبکہ قیادت،نہ پلیٹ فارم عوام کو آن بورڈ لے سکے۔ فلسطینیوں کو ،ناجائز اسرائیلی ریاست کو ناجائز ، بدمعاش اور دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے عشروں کی مزاحمت اور بجنگ آمد38ہزار بے گناہ جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ نیتن یاہو ایسے ہی تو عالمی معاشرے کا جنگی مجرم نہیں بنا۔ اور دنیا بھر کے عوام، حکومتیں اور ایوان ہائے اقتدار و پارلیمان فلسطینیوں کے حق و حمایت میں سرگرم ہوگئے۔ یہ ہے وہ قوت اخوت عوام کاوہ اعتماد عظیم جس نے اقوام متحدہ کی منافقت سمیت عالمی اولیگارکی کو مکمل برہنہ کر دیا کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔

قارئین کرام! غور فرمائیں، آج شدت سے مطلوب تیز تر ترقی و بحالی ارتقا کے جملہ پو ٹینشل کی حامل ریاست پاکستان اپنی جملہ قدرتی عنایات و انسانی صلاحیتوں کے مکمل خوف و جمود سے کثیر الجہت بحران و گرداب میں ہے۔حلف و آئین و عدل سے مکمل و مسلسل بیزاری سے ہمارے بالائی ریاستی اداروں کی جو تقسیم در تقسیم ہوئی، پورے ریاستی انتظامی ڈھانچے کی عوام سے مکمل لاتعلقی ، نام نہاد اشرافیہ کی ملکی وسائل پر اجارہ داری اور عام شہریوں کی محرومی بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ ہماری ابتر کیفیت اور گنجلک شکل اب دنیا میں تماشا ہی نہیں عبرت اور بڑا سبق بنتی جا رہی ہے۔

آفرین ہے پاکستانی قوتِ اخوت عوام پر جو اتنے بڑے قومی معاشی بحران اور مسلسل سیاسی عدم استحکام سے عذاب بن گئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ بیدار ہوتی عوامی قوت کو کچلنے اور دبائے رکھنےکے حکومتی فسطائی ہتھکنڈوں کی بھرمار سے بھی کچلی تو نہیں گئی۔ الیکشن کو مجرمانہ اور قانوناً قابل گرفت حد تک مسلسل ٹالنے، میڈیا پر غیرمعمولی پابندیوں اور اولیگارکی کو فری ہینڈ ملنے کے باوجود اس پاکستانی قوت اخوت ہی نے ملکی نظام بد کو الیکشن کرانے پر مجبور کیا۔ پری پول اور پولنگ ہوتے ہی جو کچھ ہوا اس کے درمیان جس جذبے اور شعور سے اپنی قوت اخوت عوام کا مظاہرہ کیا وہ بھی پوری دنیا اور مبتلائے مایوسی و خوف شہریوں کیلئے اپنا راستہ خاموشی، صبر اور مثالی قربانیاں دیتے نکالنا بھی بڑی اہم کیس اسٹڈی ہے جو بدلتی دنیا میں محروم و مقہور قوموں کو انتخابی مہم کی بھی اجازت نہ ملنے اور کوئی تحریک چلائے بغیر قائدین کی اسیری میں بھی اولیگارکی کے آگے ہتھیار نہ ڈالنے کا عظیم درس ہے۔ آئینی و جمہوری عمل میں اس سے بڑا ڈیزاسٹر نہیں ہوسکتا کہ بڑی اکثریت سے جیتنے والی پارٹی کا راستہ روک کر ہی بڑی شکست سے دو چار پارٹیوں کی ’’اتحادی‘‘ حکومت قائم ہو جائے۔ شریک حکومت جماعتوں کے دیرینہ وفار شعار اور برسوں سے چلنے والے اتحادی بھی بیداری ضمیر یا اپنی کھال بچانے کے لئے اس کھلواڑ کو تسلیم نہ کرکے الگ راہ نکال لیں یا خاموش احتجاج شروع کردیں۔

عالمی اولیگارکی نے حقیقی و مطلوب جمہوری اور سماجی انصاف کے ساتھ جو بدترین سلوک کیا اسی کا ردعمل ہے کہ اس (نظام بد) کے انتہائی شکل اختیارکرنے پر کسی نہ کسی شکل کا کوئی نیا پرو پیپلز سیاسی نظام تشکیل و تخلیق کے عمل سے اپنے جنم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن یاد رکھا جائے جس طرح بھارت میں ہوا کہ ہندوتوا دو ادوار کے بعد ایٹ لارج ناقابل ہضم ہوگیا، بھاجپا تنہا اکثریتی جماعت کے طور پر تشکیل و حصول حکومت کی اہل نہ رہی پاکستان میں قوت اخوت عوام سے تشکیل حکومت کے مقابل اب کوئی نیا تجربہ کسی طور ملک میں سیاسی و معاشی استحکا م کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ تشویشناک امریہ کہ جتنی مذاکرات و مصالحت و مفاہمت کی باتیں اور اپنی صلح جوئی اور نیک نیتی کے دعوے ہو رہے ہیں اس میں 8فروری کو کمال جینوئن طریقے سے تشکیلِ قوت اخوت عوام کو بالکل ایڈریس نہیں کیا جا رہا کہ اپنے تئیں حکومت نے جو ووٹر کے ووٹ کو زندہ دفنا دیا ہے کیا اس کے بعد سیاسی و معاشی استحکام کا خواب بھی دیکھا جاسکتا ہے؟ قوم ملک سلطنت کی پائندگی اور تابندگی کا لازمہ قوت اخوت عوام ہی ہے۔ آخر 25کروڑ عوام کو کیوں بے وقوف سمجھا جا رہا ہے؟کہ ان کا فیصلہ غلط ہے۔ خدا را سمجھا جائے کہ سب سول و عسکری ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ہی قدم ملا کر نہیں چلنا، یہ کار عظیم قوت اخوت عوام کی بنیاد اور شیلڈ میں ہوگا۔ وماعلینا الالبلاغ۔