• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر بجٹ کے بعد پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے درمیان اسٹاف لیول کی سطح پر نئے پیکیج کا معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت 7 ارب امریکی ڈالر 37ماہ کے طویل عرصے میں ملیں گے۔ حتمی منظوری ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ دیگا۔ نئے پروگرام کے مقاصد میں میکرو اکنامک استحکام، مانیٹری پالیسی، پائیدار ترقی اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا شامل ہے۔ توسیعی فنڈ کی سہولت 2023کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت حاصل معاشی استحکام کی بنیاد پر ملی ہے۔ آئی ایم ایف مشن نے 13مئی سے 23مئی تک پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے بعد ورچوئل مذاکرات کیے۔ ڈومور کے مطالبہ پر 77سالہ ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاق اور صوبوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی منظوری دی۔ آئی ایم ایف نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قرض پروگرام کے دوران جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا حصہ 3فیصد بڑھایا جائے گا۔ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس میں منصفانہ اضافہ ہوگا۔ برآمدی شعبے میں ٹیکس نیٹ وصولیاں بہتر کی جائیں گی۔ ریٹیل سیکٹر میں ٹیکس نیٹ بڑھایا اور زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ریاستی ملکیتی اداروں میں انتظامی امور بہتر کرنا ہوں گے۔موجودہ ملکی معاشی صورت حال میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ناگزیر ہوگیا تھا اس کے لئے سخت شرائط کی کڑ وی گولی نگلنا پڑی۔ قومی بجٹ عالمی ادارے کی مشاورت سے بنانا پڑا۔ توقع ہے نئے قرض پروگرام سے معاشی بہتری آئے گی تاہم یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں۔ سخت شرائط کی وجہ سے ہم خود انحصاری کی طرف نہیں جا رہے۔ قرضوں کے گرداب میں پھنس گئے ہیں جو قرض ملتا ہے وہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ معیشت کے استحکام کیلئے سرمایہ کاری بہترین ذریعہ ہے اور اس کی مدد سے تمام مضبوط معیشتوں نے استحکام حاصل کیا ہے۔ اب بہر طور معیشت کی تجدید کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف سے معاملات تو طے ہوگئے ہیں اس سے آنے والے مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھنے کی پیش بندی بھی کرنی چاہئے۔ پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین