8فروری کے انتخابات کے بعد اور وفاقی بجٹ آنے سے پہلےملک میں مہنگائی کا گراف ،کمی کی طرف مائل تھا،ان دنوں فی ہفتہ اس میں اوسطاً 0.11فیصد اضافہ دیکھا جارہا ہے۔اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اندازہ ہے کہ آنے والے چار پانچ ماہ میں یہ پہلے والی صورت اختیار کرسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز اختتام پذیر ہونے والے ہفتے کے دوران روزمرہ استعمال کی 23اشیا کے نرخوں میں اضافہ، 6میں کمی،جبکہ22کی قیمتوں میں استحکام رہا۔خشک دودھ 6.07،چکن16.34،کھلا دودھ 1.37،دال چنا 3.47،دال مونگ 1.02اور دال مسور 1.23فیصد مہنگی ہوئیں۔آلو 0.86فیصد،پیاز 1.55،ٹماٹر 19.47،انڈے 0.61اور آٹے کے نرخ 0.61فیصد گرے۔ملک کی 70فیصد سے زیادہ آبادی مجموعی طور پرمتوسط، کم آمدنی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ہے۔حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حالیہ ہفتوں میں مہنگائی میں کمی آئی ہےاور یہ سالانہ لحاظ سے 28فیصد سے گر کر 23فیصد پر آگئی ہےتاہم اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہےاورعام آدمی آمدنی میں اضافہ نہ ہونے سے پریشان ہے۔انتہائی گرمی میں مہنگی ترین بجلی کا ناگزیر استعمال بھی اس کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔وزیر اعظم شہبازشریف کی طرف سے مہنگائی میں کمی اولین ہدف اور صوبائی حکومتوں کو اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر فروخت یقینی بنانے کی ہدایت ہے۔اس پر کہاں تک عملدرآمد ہورہا ہے،اس حوالے سے وفاقی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔یہ طریق کار صوبائی سطح پر بھی موثر بنایا جانا چاہئے ۔اسمگلنگ،ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی کے خاتمے کیلئے ہدایات پر عملدرآمد کا تواتر سے جائزہ لیا جانابہرصورت ضروری ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998